حالیہ انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کے عمل میں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ شدت سے شخصی، ذاتی اور سطحی ایشوز زیر بحث رہے ہیں۔ میڈیا میں بھی اسی عہد کی کیفیت کی عکاسی ہو رہی ہے۔ اصل سلگتے ہوئے عوامی مسائل سے فراریت اختیار کرنے کے لئے شخصیات اور ذاتیات کو اتنا ابھار دیا جاتا ہے کہ خلقت کے دکھ، درد اور محرومیوں کے کسی سائنسی و حقیقی حل کے بارے میں زیادہ سوال نہ اٹھائے جا سکیں۔ عوام کی سوچ کو ظاہریت پرستی کی مصنوعی فلم میں الجھا دیا جاتا ہے۔ پسماندہ معاشروں میں ریاستی و غیر ریاستی ادارے اور ذرائع ابلاغ شخصیات کو مبالغے کی حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے طرح طرح کے روپ دھارے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال سماجی ٹھہراؤکے ادوار میں اس نہج پر پہنچ جاتی ہے کہ فلاں دکھوں اور ذلتوں کا نجات دہندہ بن کر آئے گا‘ اور کسی دیو مالائی کردار کی طرح جادو کی چھڑی سے عوام کے رنج و غم دور کر دے گا۔ جب سیاست سے نظریات اور معاشی و سماجی بحران کے حل کا سائنسی لائحہ عمل ہی غائب ہو جائے تو پھر اس سیاست میں ان مفروضوں کا بھاری کردار بنایا جاتا ہے کہ کون شخصیت دیانتدار اور صادق و امین ہے، کون بہادر اور نڈر ہے، کون زیادہ نیک و پرہیزگار اور مخیر ہے۔ یہاں تک کہ بعض منفی رجحانات کے حامل ایشوز کو عظمت و بڑائی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً مردانگی (Masculine) کے رویوں کو بڑے دلیرانہ انداز میں پروان چڑھایا جاتا ہے۔ مردانگی کے لئے پرکشش شخصیات گھڑی جاتی ہیں اور ان رویوں کی مذمت کرنے کی بجائے ان کے کردار کے براہ راست یا بالواسطہ گن گائے جاتے ہیں۔ پسماندہ ثقافتوں میں یہ رجحانات کہیں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ میں سیاستدانوں میں یہ ایک کلیدی ہنر بن جاتا ہے کہ ان کی اصل شخصیت کچھ بھی ہو وہ عاجزی، انکساری، سادگی اور غریب ہونے کا ڈھونگ مہارت سے ادا کرتے ہیں۔ یہ ناٹک کار‘ میک اپ کے ماہر، شخصی اظہاروں کے مطابق لباس کی طرز، مقام اور وقت کا تعین اور موقع کی مناسبت سے روپ استوار کروانے کے تجربات رکھتے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال بیسویںصدی کے آغاز کی دہائیوں میں من موہن داس گاندھی کی ملتی ہے۔ گاندھی نے ”لنکن ان‘‘ لندن سے بیرسٹری کی تھی اور جنوبی افریقہ میں ایک مہنگا وکیل تھا۔ اس کا لباس اور عادات و اطوار انگریزوں سے مختلف نہیں تھے۔ ہندوستان میں چلنے والی جراتمندانہ اور لڑاکا تحریکوں کو عدم مزاحمتی انداز میں ٹھنڈا کرنے کی واردات سے گاندھی نے یہاں سیاست کی شروعات کی۔ بھگت سنگھ میں گاندھی سے شدید حقارت کی وجہ بھی جلد ہی گاندھی کا کردار بے نقاب ہونا تھا۔ بھگت سنگھ کی پھانسی کے فوراً بعد ہی گاندھی کا برطانوی راج کے وائسرائے لارڈ اروِن سے معاہدہ ہو گیا تھا۔ گاندھی ریل کے جس تھرڈ کلاس ڈبے میں سفر کرتا تھا‘ وہ دراصل فرسٹ کلاس سیلون ہوتا تھا۔ ڈبے سے فرسٹ کلاس مٹا کر تھرڈ کلاس لکھوا دیا جاتا تھا۔ اسی طرح وہ دہلی کے جس سفید سنگ مرمر کے بِرلا محل میں رہتا تھا‘ وہاں اس کی بکری کی گندگی زیادہ دکھائی جاتی تھی۔ لیکن گاندھی کو کانگریس کی ہی ایک ریڈیکل اور دلیر خاتون لیڈر و شاعرہ سروجنی نائیڈو نے پوری مرکزی کمیٹی میں بے نقاب کیا تھا۔ اس اجلاس میں سروجنی نائیڈو نے کہا ”اب تک میں گاندھی کو ‘مِکی ماؤس‘ کہتی رہی ہوں اور یہ ہنستا رہا ہے۔ لیکن آج یہ نہیں ہنسے گا۔‘‘ سروجنی نے کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں سوال کیا ”کیا اس کمیٹی کے ممبران نے کبھی یہ سوچا ہے کہ گاندھی کو غریب اور نادار پیش کرنے میں پارٹی کو کتنی بھاری رقوم خرچ کرنی پڑتی ہیں۔ پارٹی فنڈز اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘ اس خطاب کے بعد گاندھی مسکرایا نہیں اس کا رنگ فق ہو گیا تھا۔
کوریوگرافروں کی چال ڈھال کی ہدایات، اشتہاری کمپنیوں کی تشہیر، کارپوریٹ میڈیا میں پرچار اور سماج کے ٹھیکیداروں کو قابو کرکے اپنی شرافت اور عظمتوں کی مہمات سے حاصل کردہ مقبولیت کے طلسم سے عوام کے شعور پر حاوی ہو جانے والے یہ لیڈران محنت کش عوام کی مزاحمتی جدوجہد اور بغاوتوں کو فریب سے زائل کروانے کے کام آتے ہیں۔ مقبولیت کے تسلط سے وہ پارٹیوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کا حکم حرفِ آخر بن جاتا ہے۔ وہ پارٹیوں کے آگے جوابدہ نہیں ہوتے۔ پارٹیاں اقتدار کے لیے ان کی مرہون منت ہو جاتی ہیں اور پھر پوری کی پوری پارٹیاں محض ان کے جرائم کی پردہ پوشی اور ان کو سزاؤں سے بچانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
آج کے ڈریس ڈیزائنر جہاں شوبز اور دوسرے شعبوں میں امراء کے لباسوں کو ان کے کردار کے مطابق ڈیزائن کرتے ہیں‘ سیاست میں بھی اسی طرح ان کے بیرونی روپ تیار کیے جاتے ہیں۔ مثلاً نریندر مودی دن میں کم از کم چار مرتبہ مخصوص پبلک کے سامنے مخصوص لباس زیب تن کرتا ہے۔ اب جو صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے ہیں‘ بتایا یہ جا رہا ہے کہ ان کو یہ عہدہ دیے جانے کا میرٹ ان کی پسماندگی اور غربت ہے۔ ان کے گھر میں بجلی نہیں! حالانکہ بلوچستان کے بارڈر پر ان کا دیہات واقعی پسماندہ ہے لیکن ان کے تونسہ، ملتان، ڈیرہ غازیخان اور لاہور والے گھروں میں کبھی بجلی جاتی ہی نہیں ہے۔ ائیرکنڈیشنر کبھی بند نہیں ہوتے۔ امریکی سرمایہ داری کو ایک کامیاب ماڈل قرار دینے کے لئے دنیا بھر کے حکمران طبقات کے یہ جغادری بہت دہراتے کہ ابراہم لنکن ایک لوہار سے امریکہ کا صدر بن گیا‘ لیکن اگر یہی معیار ہے تو ہزاروں امریکی لوہار اس دور اور اس کے بعد کے ادوار میں اپنی محنت کے پھل سے محروم اور ذلت و غربت کی زندگی گزارتے رہے ہیں۔ مخصوص حوادث میں چند انفرادی شخصیات کا سماجی مفلسی اور محرومی میں سے ابھر کر ”بڑا آدمی‘‘ بن جانا درحقیقت ایک سماجی ذلت کو انفرادی شخصیت تک محدود و مسدود کرنے کا طریقہ واردات بن گیا ہے۔ غربت محرومی اور ذلت صرف انفرادی مسئلہ نہیں ہے‘ یہ ایک سماجی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ پاکستان میں سینکڑوں ایسے افراد اور لیڈر ہیں جن کا تعلق سماج کے نچلے حصوں سے تھا‘ جو اب بڑے بڑے سیاستدان اور نو دولتیے بن کر ارب پتی ہو گئے ہیں۔ لیکن محنت کرنے والے طبقات جس محرومی استحصال اور ظلم کا شکار ہیں اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے‘ کمی نہیں آئی۔ عثمان بزدار‘ جج کے والد صاحب تین مرتبہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے اور وہ اب اس علاقے میں بزدار قبیلے کے سردار اور تمندار ہیں‘ الیکشن کمیشن میں ان کے جمع کرائے گئے گوشواروں کے مطابق اثاثے 4 کروڑ کے قریب ہیں۔ لیکن کیا عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے سے جنوبی پنجاب کی پسماندگی دور ہو جائے گی یا پھر سرائیکی وسیب میں قومی محرومی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ میرے خیال میں اس کا جواب صرف نفی میں ہے۔ اسی طرح جہاں محنت کش محروم طبقات میں سے کسی کے سربراہ مملکت بن جانے سے مزدوروں اور دہقانوں کے دکھ درد دور نہیں ہوتے۔ اسی طرح مظلوم قومیتوں کے سیاستدانوں کے کسی بڑے عہدے پر فائز ہو جانے سے ان کا قومی استحصال اور جبری محرومی ختم نہیں ہوتی۔ شخصیات اور ان کے تشخص کو مبالغہ آرائی سے سنجیدہ مسائل اور پالیسیوں کے حل کے طور پر پیش کرنا محض دھوکہ اور فریب ہے۔ تعلیم‘ علاج‘ روزگار‘ بجلی‘ پانی اور نکاسیٔ آب اجتماعی ضروریات ہیں۔ یہ امیر علاقوں میں کہیں اعلیٰ معیار کی ہیں اور غریب بستیوں میں نہ ہونے کے برابر۔ یہ ایک ایسا معاشی‘ اقتصادی اور ریاستی نظام ہے جس میں ایک طبقہ امیر سے امیر تر ہو رہا ہے اور محروم اور مفلس غربت کی کھائی میں گر رہے ہیں۔ اسی طرح لینن نے جمہوری مرکزیت اور اشتراکی بغاوت کی بنیاد کو سوشلسٹ انقلاب کے لئے کلیدی قرار دیا تھا۔ نظاموں کو بدلنے سے ہی معاشرے اور انسانی زندگیاں نجات پاتی ہیں۔ آزادی حاصل کرتی ہیں۔ شخصیات اور چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن نظام وہی رہتا ہے جہاں غربت‘ ذلت اور استحصال کو محنت کش اور محروم طبقات کا مقدر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک نظام بنائے ہوئے اس مقدر کو اس نظام کے خلاف بغاوت کرنے والے محنت کش عوام ہی بدل سکتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ