بہار کا جوں ہی موسم آتا ہے تو سرائیکی اجرک کی بھی وسیب میں بہار آ جاتی ہے ، آج جسے دیکھو اُس کے شانے پر سرائیکی اجرک ہے، سرائیکی اجرک ڈے خطے کا قومی تہوار بن چکا ہے اور خطے کے لوگ اس دن کو جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں بالکل اسی طرح سندھ کلچر ڈے منایا جاتا ہے، بلوچ کلچر ڈے منایا جاتا ہے، سب علاقوں کے اپنے اپنے تہوار ہیں اپنے اپنے رنگ ہیں جب تمام رنگ ملتے ہیں تو ایک پاکستان بنتا ہے جو ہم سب کی آرزوؤں اور اُمنگوں کا آئینہ دار ہے اور جس سے ہم سب محبت کرتے ہیں ۔ سرائیکی اجرک کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کی بہت سی ثقافتی نشانیاں ہیں جو کہ اپنی اپنی جگہ پر ایک تاریخ رکھتی ہیں اجرک سرائیکی خطے کی صدیوں پرانی ثقافتی علامت ہے۔ ازرق کا لفظ عربی کے لفظ سے وجود میں آیا ہے۔ اجرک کا لفظ ’’ازرق‘‘ سے تبدیل ہو کر اجرک بن گیا۔ اس کا مطلب ہے ’’نیلا‘‘، تاریخی واقعہ ایسا ہے کہ عرب فوجیں محمد بن قاسم کی سربراہی میں سلطنت ملتان پر حملہ آور ہوئیں تو بہت سے لوگوں نے اپنے کاندھوں پر یہ چادریں اوڑھی ہوئی تھیں جو ملتانی کاشی کے نیلے رنگ سے رنگی ہوئی تھیں۔ جب عربوں نے دیکھا کے تو ان کے منہ سے ’’ازرق ،ازرق ‘‘ یعنی ’’نیلا ،نیلا‘‘ کا لفظ نکلا۔ بعد میں اس چادر کا نام اجرک ہو گیا۔ کیونکہ کچھ مقامی لوگ ’’ز‘‘ کو ’’ج‘‘ کہہ کر بولتے تھے۔
عرب حملہ آوروں، ان سے پہلے اور ان کے بعد کے حملہ آوروں کی وجہ سے سرائیکی قوم اور سرائیکی خطے سے جو بنی وہ ایک الگ تاریخ اور الگ دردناک داستان ہے، سرائیکی وطن سے بے وطن ہوئے، سرائیکی میں سے سندھی، پنجابی، اردو، پوٹھوہاری، ہندکو اور دوسری زبانیں پیدا ہوئیں لیکن سرائیکی کی تہذیبی ثقافتی اور جغرافیائی شناخت مٹا دی گئی۔ سندھی بھائیوں کو شناخت اور صوبہ مل گیا اور اجرک کے رنگ تبدیل ہو کر سندھی اجرک بن گئی۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ سرائیکی اجرک سندھی اجرک کے مقابلے میں نہیں بلکہ اُس کے متبادل ہے۔ خوشی کی بات ہے۔ آج کے تاریخی موقع پر سرائیکی قوم اپنی صدیوں پرانی اجرک کو اس کے اصل رنگوں میں دنیا کے سامنے لے آئی ہے اور اپنی گمشدہ میراث کو ویسے زندہ کیا ہے جیسے سرائیکی زبان اور سرائیکی ثقافت کو زندہ کیا ہے۔ ایک اور چھوٹی سی بات بھی کرنا چاہتا ہوں کہ سرائیکی اجرک کا رنگ نیلا ہے اور نیلے رنگ سے سرائیکی وسیب وابستہ ہے۔ ایک تو پوری دنیا میں نیل کی کاشت اور بیرون ملکوں کو برآمد کا بڑا علاقہ سرائیکی رہ گیا۔ دوسرا یہ کہ ہمارے سندھ دریا کا نام ’’نیلاب‘‘ بھی ہے۔ اور یہ کہ نیلے رنگ کو سرائیکی وسیب کا صوفیانہ لباس بھی کہا جاتا ہے۔ہماری عورتیں کپڑوں کی دھلائی کے وقت سفید کپڑوں کو نیل ضرور دیتیں ہیں تاکہ کپڑے میں چمک آ جائے ۔ کیوں کہ نیل کے خواص میں سے ایک میل کپڑ بھی ہے۔ ہمارے وسیب میں پگ کو نیل دینا ضروری سمجھا جاتا ہے اور نیل والی پگ باندھنے والے کو سرائیکی میں معزز سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اکھان ’’گدڑ نیل دی حوض اچ ونجٖ پووے تاں مہاندرا نی بنْ ویندا‘‘ عام استعمال کیا جاتا ہے، اس بارے ایک کہانی بھی ہے، بہر حال سرائیکی میں نیل کوٹ، نیل واہ، نیل گڑھ اور ایسے بہت سارے نام نیل کی عظمت کی نشنانی ہیں اور نیلے رنگ کی سرائیکی اجرک پر سہاگہ ہے۔ سفید اور لال رنگ والا سرائیکی رومال سرائیکی کے عظیم شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی یادگار نشانی ہے، انہوں نے اس رومال کو گلے میں ڈالا تو یہ سرائیکی رومال بن گیا۔ اس رومال کا سفید رنگ سرائیکی وسیب کے لوگوں کی ’’ امن پسندی‘‘ اور لال رنگ ’’جدو جہد‘‘ کی علامت ہے۔ آج خواجہ فریدؒ سئیں کی نشانی سرائیکی رومال سرائیکی وسیب کا ہر آدمی چاہے جس مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتا ہو یا وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، سرائیکی رومال بڑی محبت سے پہنتا ہے۔ کیونکہ سرائیکی رومال وسیب کی پہچان بن چکا ہے۔ یہ رومال ایک دوسرے کو تحفے میں دینے کے ساتھ ساتھ شادی بیاہ اور گھوٹ کے بھائیوں کو بھی پہنائے جاتے ہیں، آج کل بڑے بڑے اجتماعات اور کانفرنسوں میں مہمانوں کے گلے میں سرائیکی رومال پہنانے کو شان اور بڑائی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
فیس بک کمینٹ