کون کہتا ہے محبت عظیم ہے؟ محبت زندگی ہے ،بندگی ہے ،روشنی ہے ،شگفتگی ہے ،ہوا ہے،دیا ہے،اجالا ہے،سورج ہے،چاندہے۔محبت تو صرف آنکھ کا دھوکا ہے، یہ لفظوں کاکھیل ہے، ہجرکادوسرانام ہے، سراب ہے، عذاب ہے،گلاب ہے، سوال اور جواب ہے،بے تعبیر خوا ب ہے ۔محبت دردہے،زرد ہے،دکھ ہے،روگ ہے،سوگ ہے،اندھیرا ہے ،ٹوٹا ہو ا کنارہ ہے، ہجر میں ڈوبی رات کاستارہ ہے۔ کون کہتا ہے محبت عظیم ہے؟ محبت زندگی ہے ،بندگی ہے ،روشنی ہے ،شگفتگی ہے ،ہوا ہے،دیا ہے،اجالا ہے،سورج ہے،چاندہے۔محبت تو صرف آنکھ کا دھوکا ہے، یہ لفظوں کاکھیل ہے، ہجرکادوسرانام ہے، سراب ہے، عذاب ہے،گلاب ہے، سوال اور جواب ہے،بے تعبیر خوا ب ہے ۔محبت دردہے،زرد ہے،دکھ ہے،روگ ہے،سوگ ہے،اندھیرا ہے ،ٹوٹا ہو ا کنارہ ہے، ہجر میں ڈوبی رات کاستارہ ہے۔ اوریہ ہجر؟یہ تو ازل سے ہے ابد تک رہے گا۔ابھی رب کائنات نے ”کن“کا فیصلہ ہی کیا اور ہجر شروع ہوگیا۔حضرت آدم علیہ السلام کومالک کائنات نے آسمان سے بے دخل کرکے اپنے ہی ہجر سے آشنا کردیا اورزمین کی وسعتوں میں بھٹکتی دو روحوں کو صدیوں کے ہجر سے آشنا کرکے درد کو نئے معانی دیئے۔غم کو نیا سوز دیا۔اور محبت کو ہمیشہ کے لیے مژگاں پر سجادیا اور صدیوں بعد وصل کو معانی ملے بھی تو ہجر درپردہ کھڑا اپنی بقاءپر مسکرارہاتھا اور وصل کو اس کی اوقات یاددلارہا تھا کہ تُو پل دوپل کامسافر اور میں ازل سے ابد تک امر۔ محبت نے جب عبد کے جذبوں کو ا ٓواز دی تو عشق کے چولے میں ہجر کے زرد پھول ہی پائے۔آہ زرد ہجر کے پھول جنہیں کسی آبیاری کی ضرورت نہیں۔کوئی تو پوچھے ان ہجر کے ماروں سے جنہوں نے پہاڑ جیسی زندگی مطلوب کی چاہ میں خاک ہوتے ہوئے کاٹ دی۔جو راکھ ہوئے،ریزہ ریزہ ہوئے،ہوا نے دھول کی طرح انہیں کہاں سے کہاں تک اڑایا مگر محبت کے ان ماروں کی نہ چاہت میں کمی آئی نہ ہی جستجو اورآرزو میں۔اورجب منزل سامنے آئی تو مطلوب نے بڑی ادا سے پوچھا ”آپ کون“؟ پھربھلا محبت کیسے نہ روئے؟کیسے اپنا سفرِ عشق جاری رکھے؟ کون جان سکا طالب کی وہ بے بسی؟ وہ آنکھ کاآنسو جب اس نے خون دل سے روتے ہوئے اپنے رب کوپکارا ہوگا۔زار وقطار گریہ کناں ہوا ہوگا۔اس کی بارگاہ میں اپنی رائےگانی کاسوال کیا ہوگا۔قطاردرقطار بہتے آنسو خاک میں رائیگاں ہوئے ہوں گے۔کون جان سکا اس رائیگاں ہوتی ہوئی ذات کادکھ؟ کون جان سکا ہوگا بے بس آنکھ کاآسمان کی طرف طواف کرنا؟ کون جان سکا لاحاصل عشق کی رائیگانی کاسفر؟ کون جان سکا ہجر میں ڈوبی ہوئی ذات کادکھ؟ کون جان سکا صبح سویرے اترنے والی رات کا دکھ؟ کون جان سکا جیت کے لمحوں میں ہونے والی مات کا دکھ؟ کون کہتا ہے وقت مرہم ہے۔کیا وقت نے کبھی کسی کا نعم البدل پیدا کیا؟کیا وقت نے مڑ کے واپسی کا سفر اختیارکیا ؟ کیا وقت کسی کوکبھی ایک لمحے میں سے نکال کے واپسی کے سفر میں اسی لمحے میں واپس لایا جہاں پہ ٹھہرنے والا یہ بھی بھول گیاتھا کہ وہ کون ہے؟ وہ بھول چکا تھا وہ کیوں ٹھہرا ہے؟ اور کس کامنتظر ہے ؟ اورکیا وقت نے کبھی جانے والے کوروک کے بتایا ہے کہ وہ کیا جرم کرکے جارہاہے؟اورکیسا ہجر کسی کے نصیب میں لکھ کے جارہا ہے؟ جانے والا تو اپنی دنیامیں مگن، نئی اڑانوں کی خوشی میں مست ہوتا ہے اور پل میں کیے ہوئے اپنے سارے وعدے اور دعوے مذاق سمجھ کر فراموش کردیتا ہے اور راہ تکنے والا بس آخری سانسوں کے انتظار کے ساتھ ساتھ ایک آہ،ایک یقین میں جی رہا ہوتا ہے۔اورجب یقین گمان میں بدل جائے تو کیا پھربھی محبت کہیں ہوتی ہے؟ نہیں۔۔صرف آنکھ سے بہتا آنسو،ایک ایسا ہجر جس کاوصال کہیں نہیں۔کسی لمحے میں نہیں۔اور ہجر کے معنی وصال رتوں میں مست بھلا کیونکر جان سکیں۔کیونکہ محبتوں کوعمروں کے حساب کتاب میں شمار کریں۔یاشعور ،لاشعور کے فرق میں ڈھالیں۔یا دکھ سے فرارکا بہانہ کریں۔یا خوشی کوا لحمد اللہ کہہ کرقبول کریں۔ان کی مرضی جس کو معتوب ٹھہرائیں جس کومطلوب مانیں۔کبھی اس محبت کودیکھو جب گود کے بوجھ سے لے کر اپنی ساری جوانی ڈھلنے ،ساری زندگی ختم ہونے تک ماں بچے کوپالتی ہے۔نہ اپنی خبر ،نہ زمانے کی ،ایک پودے کواپنی تمام ترصلاحیتوں، اپنی خوشیوں کے ہرلمحے کوقربان کرکے دکھوں کی آبیاری سے پروان چڑھاتی ہے اورپھر ہجر کوبھی اپنی اولاد کی طرح پروان چڑھتے دیکھتی ہے۔وقت کی آبیاری سے اپنی آنکھوں میں ہجر کے زرد پھول کھلتے دیکھتی ہے تو پھرآنکھ روپڑتی ہے۔دل بلکتا ہے ،محبت آنسو ہے اور آنسو ہی رہتی ہے اورپھر بھلا محبت کوآنسو ہونے سے کون روک سکا ہے؟ کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس
دونیناں مت کھائیو انہیں پیا ملن کی آس
ازل سے ابد تک اکیلے پن کا سفر کرنے والا عشق ،ریزہ ریزہ خوابوں کی چبھتی کرچیوں اورمحرومیوں کے بوجھ تلے دبی خواہشوں اورحسرتوں کی لاش کے سواءکچھ بھی تونہیں۔ کرب میں گزرتی بے یقینی،مایوسی کی دھول سے اٹی ہوئی بے خواب راتوں کی کہانی،مسلسل جاگتی،بینائی کھوتی ہوئی آنکھوں کی کہانی کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔کون اسے روشنی کانام دے یہ تو شب سیاہ کے سوا کچھ بھی نہیں، ایک سردآہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔خوابوں میں ٹھہرے ہوئے مہر وماہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں ۔۔یہ کب بھلا جینے کا ہنر دے۔یہ تو خود ہی موت ہے۔زندگی کی ،سانسوں کی،بندگی کی،ریاضت کی ،روح کی اورجسم وجان کی موت۔وقت کے دائروں میں رقصاں وصال کے منتظر جسم وجاں ہمیشہ راکھ ہوجاتے ہیں،خاک ہوجاتے ہیںاس کے زہر سے اورپاتال میں اتری روح اس کے اندھیروں میں اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے کھو دیتی ہے۔یہ تووہ ظالم ہے جوحطیم میں سجدہ ریز روحوں کو اٹھا کر بازار میں سجا لائے اور پھربھی خود کو درویش کہلائے۔ پھربھلا ایسے میں اے محبت تجھے کون نہ روئے؟ تجھے آنسوﺅں کا نام کون نہ دے؟
ان اشکوں کا تو ذکر ہی کیا
تجھے عشق لہو سے بھی لکھا
کبھی پڑھ تو سہی ان نوحوں کو
تجھے علم تو ہوتحریر ہے کیا؟
( بشکریہ : روزنامہ خبریں )
فیس بک کمینٹ