دل ٹوٹنے کے بعد ایک ایسی منزل بھی آتی ہے جب درد اپنی صورت بدل لیتا ہے۔ وہ آگ کی طرح جلتا نہیں بلکہ ایک ٹھنڈی دھند بن کر زندگی کے ہر منظر کو ڈھانپ لیتا ہے۔ زندگی چلتی رہتی ہے، انسان جاگتا ہے، کام کرتا ہے، بات کرتا ہے، کبھی مسکراتا بھی ہے, مگر دل پر ایک نرم سا بوجھ رہتا ہے جو کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔
ابتدا میں مجھے لگا کہ میرا غم ایک شخص سے جڑا ہوا ہے، کسی ایسے وجود سے جو میری زندگی میں آیا اور چلا گیا۔ مگر وقت کے ساتھ احساس ہوا کہ یہ غم کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ معنی کے ختم ہونے کا غم ہے، اس خاموشی کا غم جو جذبات کی موسیقی کے تھم جانے کے بعد پھیل جاتی ہے۔
یہ کتنا عجیب ہے کہ ہم کبھی کبھار اُن لوگوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جن سے اب ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں رہتا۔ وہ اپنی غیرموجودگی میں بھی ہمارے اندر بولتے رہتے ہیں، کسی آواز کی طرح، کسی بازگشت کی طرح۔ اب مجھے لگتا ہے کہ محبت ختم نہیں ہوتی، وہ صرف اپنی سمت بدل لیتی ہے۔ وہ باہر سے اندر کی طرف مڑ جاتی ہے. وہ تفکر، فن اور ہمدردی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ انکار کا درد ذلت نہیں، یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارا دل اب بھی زندہ ہے، اب بھی کسی جذبے سے لرز سکتا ہے۔ جب زندگی کے رنگ ماند پڑ جائیں تو دکھ کا احساس ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ابھی پتھر نہیں بنے۔
شاید یہ شفا کی وہ خاموش منزل ہے جب آگ بجھ جاتی ہے مگر حرارت باقی رہتی ہے۔ میں آج بھی اس کمی کو محسوس کرتا ہوں، مگر شکر گزار ہوں کہ اس نے میرے اندر انسانیت کی ایک نئی پرت جگا دی۔ ایک ایسا احساس جو اب مجھے دوسروں کے دکھ کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
فیس بک کمینٹ

