سنا ہے بہارمیں چمن کے سوکھے گوشے بھی لہلہانے لگتے ہیں ،خشک ٹہنیاں پھرسے شاداں ونازاں ہوکر پھولوں سے اپناتن سجاتی ہیں اورفخروانبساط سے آسمان کی وسعتوں کو تکتی ہیںاورشکر بجالاتی ہیں مگریہ کیسی بہارہے جومیرے وطن میرے دیس اورمیری دھرتی کامقدربن چکی ہے ،یہ کیسا خوف ہے جوگردوغباربن کرمیرے دیس کے باسیوں کی آنکھوںمیں بس گیاہے ۔
یہ کیسے وچھوڑے ہیں، جن میں واپسی کاکوئی امکان نہیں ،ہجرہی ہجرہے جسم وجاں کا،روحو ں کا،دلوں کا،آنکھوں سے خوابوں کا،نغموں سے سماعتوں کا ،یہ کیسی بے بسی ہے اوریہ کیسی بے حسی ہے ۔ اور اسی بے بسی اور بے حسی کے موسم میں جسے عرفِ عام میں بہار کہا جاتا ہے ، خزاں خزاں چہروں اورویران روحوں کے ساتھ جینے کی اداکاری کرنے والی عورتوں سے کہا جاتا ہے کہ آﺅ اپنی عظمت کے گیت گاﺅ ۔ آ ﺅ اور دنیا کو بتاﺅ کہ وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ ۔ عورت بے چاری بھی کیا کرے وہ جانتی ہے کہ اس کے دم سے کائنات کی تصویر میں تو رنگ موجود ہیں لیکن اس کی اپنے تصویر بے رنگ ہو چکی ہے ۔ لیکن پھر بھی وہ آواز بلند کرتی ہے اور عالمی دن مناتی ہے ۔ اپنے حقوق کی بات کرتی ہے ۔ سب دکھوں کو بھول کر ۔میں جانتی ہوں مجھے آج کے دن ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں ۔ مایوس نہیں ہونا چاہیئے اور دکھوں کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ایسی رت میں جب ہر طرف مسکراہٹیں ہیں اور قہقہے ہیں ۔ ابھی کل تو لاہور میں کرکٹ میچ کھیلا گیا ۔ خوشیوں کی باتیں ہوئیں اور امید کی کرن جاگی ۔ لیکن میں کیا کروں میرے ذہن میں وہ بے حسی اور اخلاقی پستی کی تصویریں نقش ہو کر رہ گئی ہیں جو زیادہ پرانی تو نہیں ہیں ۔ بس ایک ہفتہ پہلے ہی کی بات ہو گی یا ممکن ہے 15روز پہلے کی بات ہو جب مجھے واٹس ایپ پر لاہور دھماکے کی وہ تصویریں اور ویڈیوز ملیں جو نوجوانوں نے (زندہ دلانِ لاہور نے) مُردوں کے ساتھ بنوائی تھیں ۔ ایک دھماکے کے بعد ادھرلاشیں اٹھائی جارہی تھیں، گھروں میں ماتم تھا اور لوگ بے حس ہوکر سیلفیوں اورلاشوں کے ساتھ ویڈیوز بنانے میں مصروف تھے ۔ بے حسی کے عجیب مناظردیکھ کر ، انسانیت واخلاقیات کی تذلیل دیکھ کر دل خون کے آنسورواٹھا،اس ویڈیومیں خون میں لت پت لاشیں پڑی تھیں ، کچھ زخمی بھی کراہ رہے تھے۔افراتفری مچی ہوئی تھی، لیکن ہمارے نوجوان ،ہمارا کل ، ہمارامستقبل ان زخمیوں کی مددکرنے کی بجائے مختلف زاویوں سے ان تڑپتے زخمیوں اورلاشوں کی تصویریں اورویڈیو بنانے میں مصروف تھے اورانہیں فوری طورپرسوشل میڈیاکاحصہ بنارہے تھے۔میں سوچتی رہی کہ کیا یہ انسانیت ہے ؟ کیایہی ہمارامذہب ہے ؟ کیایہی ہمارا دین ہے کہ ہم بے حس ہوگئے ہیں ۔ کیاہواہے ہمیں ؟کیاہمارے گھر میں، ہماراپیاراہم سے جداہویاتکلیف میں کراہ رہاہو توکیاہم اس کی مددکرنے کی بجائے اس کی تکلیف کم کرنے کی بجائے یااس کے وچھوڑے کے درد اورکرب کو محسوس کرنے کی بجائے ایسے ہی تصویریں بنائیں گے ، ایسے ہی ویڈیوز بنائیں گے؟ کیاکوئی ایسا کرسکتاہے ؟ ہاں بنائیں تصویریں اورویڈیوزجب خوشیاں ہوں ،جب زندگی کراہنے کی بجائے کھل کھلارہی ہو جب ہرسوبہارہودلوں میں ،تن پہ ، جسم وجاں اورروح پہ سرشاری ہو ۔یوں دکھ پرتماشہ تونہ بنائیں دکھ کو محسوس کریں دکھی کی تذلیل تونہ کریں آج جس فضامیں ہم سانس لے رہے ہیں۔ گھٹن ہی گھٹن ہے ۔ کرکٹ میچ کے بعد آپ کو میری یہ باتیں بہت عجیب لگ رہی ہوں گی ۔لاہور والوں نے دہشت گردوں کی دہشت صرف ایک میچ کے ذریعے ختم کر دی ۔ افسوس کہ مجھ سے یہ میچ نہیں دیکھا گیا ۔ شاید اس لئے کہ میں محب وطن نہیں ہوں ۔ مجھے پاکستان زندہ باد کہنا چاہیئے تھا لیکن میرے سامنے ٹی وی پر زندہ دلانِ لاہور سیلفیاں بنوا رہے تھے اور جب وہ تصویریں بنواتے تھے تو وہی لاشیں میری نظر میں آ جاتی تھیں او ر مجھے صرف پندرہ روز پہلے کا دھماکہ یاد آ یا جس میں اپنی شادی کی شاپنگ کے لئے جانے والی دلہن بھی جان کی بازی ہار گئی تھی ۔ کیا اس دلہن اور دھماکے میں مرنے والوں کے ورثاءاور اس دھماکے میں اور زخمی ہونے والوں کے دلوں سے بھی اس میچ نے دہشت ختم کر دی ہو گی ؟ کل کرکٹ کے جشن میں ہم نے انہیں کتنی اذیت دی ہے خود ہمیں بھی اندازہ نہیں ۔ یہ خزاں خزاں یوم خواتین اسی دلہن اور دہشت گردی کے نتیجے میں چوڑیاں توڑنے اور ماتم کرنے والی عورتوں کے نام ہے ۔اور ان کے نام جو زندہ ہیں مگر زندہ تو نہیں ، اور جو خوشبو کی طرح بچھڑیں تو پھرگرد و غبار بن کر رہ گئیں ، اور جو آنکھیں اس لئے بند رکھتی ہیں کہ کسی کو ان میں کوئی تصویر نظر نہ آئے ۔
فیس بک کمینٹ