جس طرح آپ نے ’اپنے منہ میاں مٹھو ‘ بنتے بہت سے کرداروں کو دیکھا سنا ہو گا اسی طرح ہم نے جب سے ادب سے رشتہ جوڑا ہے، اپنے ارد گرد کئی جعلی صوفیوں اور نقلی صوفیانیوں کو دیکھا ہے جو چند دن آپ کے سامنے شور شرابہ ڈال کر آپ کے دل سے اتر جاتے ہیں۔کوئی شخص اپنا نام علم دین رکھوا کرکو ئی عالم فاضل نہیں بن جاتا ، بعینہ پوروں کو سرخ رنگ میں ڈبو کر کوئی شہید نہیں بن سکتا۔باقی شعبہ ہائے زندگی کی نسبت ادب میں جعلسازی کے ایسے ایسے محرکات ملتے ہیں کہ جیسے پنجابی میں ایک کہاوت ہے کہ ”پلے نہ دھیلا تے کردی میلہ میلہ“۔ہمارا مقصد یہاں ان کرداروں کو ایکسپوز کرنا نہیں بلکہ اس کے متضاد آج ایک ایسے مصنف کی بات کرنا مقصود ہے جس کی محنت کئی دہائیوں تک پھیلی ہوئی ہے اور اس نے اپنی تحریر کا لوہا اپنی زندگی میں ہی منوایا ہے جس پر نہ کبھی اس کا تکبر دیکھا گیا اور نہ ہی اس نے کبھی کوئی دعویداری کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ لگتا ہے کہ عظیم دانش وروں کی طرح وہ بھی اپنی خدمات ادبی صحیفوں کی صورت میں میدان ِ سخن میں رکھ کر تارک الدنیا ہے۔کوئی بھی ادیب اپنے اسلوب کی وجہ سے دوسروں سے منفر اور ممتازاپنی شناخت بناتا ہے تو ہی زندہ رہتا ہے۔ابدا ل بیلا کا مخصوص لہجہ اور اسلوب ایسا جادو رکھتا ہے کہ پڑھنے والوں کوپہلی قرات میں ہی اپنا اسیر کر لیتا ہے۔ اس کے انداز سخن کی طلسماتی فضا ہر قرات میں نئے انداز سے عنبر فشاں ہوتی ہے۔ اس کے مضبوط لفظوں کی جڑیں اپنی تہذیبی زمین سے پیوست ہیں اور قلندرانہ دل ایمان کی پختگی سے مالا مال ہے۔ اپنی قدروں اور دھرتی سے اس کا رشتہ اٹوٹ اور لازوال ہے۔ابدال بیلا کے نثری فن پارے وہ کاٹ دار اور توانا آواز رکھتے ہیں جو عصری شعور سے مزین ہیں اور اس کی گونج میں ہمیں عہدِ تازہ کی تلخی گندھی ہوئی دِکھتی اور محسوس ہوتی ہے۔ ابدال بیلا 14 دسمبر 1956 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوا۔وہ جتنا بڑا ناول نگار ہے اتنا بڑا ہی افسانہ نگار ہے اوروہ جتنا اچھا تجزیہ کرتا ہے اتنا ہی عمدہ کالم بھی لکھتا ہے۔وہ روشن ذہن اور خوش مزاج آدمی ہے۔وہ سر تا پا ادبی شخصیت ہے۔ اس کا شمار اچھے فکش نگاروں میں شامل ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاک نیوی میں جاب کرنے والا اتنا حساس دل رائیٹر بنے گا ۔اسے 2012 میں بھارت نے ادبی خدمات پر ساحر ایوارڈ اور اسی برس نشان دوستی ایوارڈ سے نوازا۔تیس سے زیادہ کتب کے خالق نے اپنے انوکھے اسلوب سے اردو ادب کو ورائٹی عطا کی ہے۔ حال ہی میں سیرت پاک پراس کی ایک ضخیم کتاب ”آقا“ کے نام سے چھپی ہے جو 1144 صفحات پر مشتمل ہے۔اس سے قبل سن فلاور،رنگ پچکاری،بوندا باندی، عرضی، کبوتر با کبوتر، ماﺅ میو وال، دہلی کی ارجمند بانو، زیر لبی، سورج کے رخ پر، انہونیاں، جادو نگری، مفتی جی، لب بستہ، ککراں ہیٹھ گُلی، تُم، سائیں بگوشا، بین بجاﺅ، ندی کنارے، شاہ سائیں، اُرمیلا، لال قلعہ، بٹوارہ ،ٹرین ٹو پاکستان، پاکستان کہانی، بیلا کہانی، ابدالیات ، دروازہ کھلتا ہے اور دیگر کتب منصہ شہود پر آچکی ہیں ۔ یہ ساری کی ساری سنگ میل پبلی کیشن نے چھاپی ہیں۔ان میں سات عدد ناول ہیں،سات عدد ہی افسانوں کی کتابیں ہیں ، ابدالیات میں نظمیہ رنگ کے افسانے ہیں۔ سات افسانوی مجموعوں میں سے چار میں افسانوی رنگ کی کہانیاں ہیں اور تین میں ناول کا رنگ پایا جاتا ہے۔کبوتر با کبوتر میں کل چودہ شخصیات پر مضامین لکھے گئے ہیں۔ بین بجاﺅ کالموں کا مجموعہ ہے۔پاکستان کہانی رپورٹ تاژہے۔ابدال بیلا کی، عظیم لکھاریوں کی طرح ایک خوبی ہے کہ وہ اتنا ادب تخلیق کر کے بھی انتہائی صوبر، تحمل مزاج اور سادگی پسند ہے۔ دوستوں نے ان کو کبھی اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا۔ وہ بات بہ بات کہتا ہے کہ میں نے جو سیکھا اپنے بزرگوں سے سیکھا۔ یہاں لوگ دو کتابڑیاں لکھ کر ادب کے ٹھیکے دار بن جاتے ہیں۔ وہ یا تو ادب کا جھوٹا سچا بیوپار کرتے ہیں یا حکومتی ایوانوں میں جا بیٹھتے ہیں ،یوں ان کے حالات پر خوب برگ و بار آتا ہے مگر اس کے مقابلے میں ادب کو”سوکڑا “ہو جاتا ہے ۔اس کے باوجود ایک کلاس ایسی ہوتی ہے جو ان کی بوسیدہ تحریروں کو” تولیے“ میں لپیٹ کر اپنے گھر کے کسی کونے کے جزدان میں جا کر سجا دیتی ہے ۔ان تصانیف کو شائد ہی وہ کلاس دوبارہ کھول کر دیکھتی ہو یا حرام ہے ان کی نسلیں بھی اسے پڑھتی ہوں ،مگر وہ خریدتے اس کروفر سے ہیں جیسے سارے جہان کی بصیرت اُنہیں، اِنہیں کتابوں میں نظر آئی ہو۔اب وہ وقت آگیا ہے کہ ان کی مرمت نہیں بلکہ مذمت کی جائے کہ جو خالص تخلیقی کام کرنے والوں کو بے حوصلہ کرتے ہیں اور ان کی جگہ غیر اہم و نالائق ادیب اور ادب کو دے دیتے ہیں۔ اگر آج ہم ان سرکنڈوں اور اذیت ناک روڑوں کو راستوں سے نہیں ہٹائیں گے تو ان کی بڑھوتڑی ادب کا کومل اور دلنشیں راستہ مزید نا ہموار کرتے جائیں گے۔جب کسی گھٹیا اور دو نمبر ادیب کو اس کے کیے پر سزا نہیں دی جاتی تو وہ سزا پورے ادبی منظر نامے پر تقسیم ہو جاتی ہے جس کا خمیازہ سارے سماج کو بھگتنا پڑتا ہے۔ہمیں ان بد نما شاخوں کو کاٹنا ہو گا۔یہ مٹھی بھر بوسیدگی پورے خطہ ادب کو گھن لگائے ہوئے ہے ۔ بعض اوقات ذود سخن لوگ بھی اس کارِ بد میں اضافہ کرتے ہیں مگرابدال بیلا کے ساتھ ایسا ہر گز نہیں ہوا ۔اس کے ادبی جواہرمیں طاقت بھی ہے اور توانائی بھی۔ اگر چہ اس کی کتابیں عام کتابوں سے ذرا ضخیم ہوتی ہیں ۔ اس سے یہ بھی پتہ ملتا ہے کہ ابدال بیلا کے ہاں لفظیات، تراکیب، علامتوں، تلمیحات، علوم ، تازگی اور اسالیب کے ذخیرے موجود ہیں وہ اپنے فکر کی قلم سے لفظوں کے رنگوں سے روشنی بکھیرتا ہے توکینوس پر ادبی مہکار اپنے گردو پیش کو بوستان بنا دیتی ہے۔ بدال بیلا اپنی تصانیف کا ڈھول نہیں بجاتا ۔ وہ جب بھی تخلیقی عمل میں سے گزرتا ہے، اس پر تکبر کرنے کی بجائے اپنی مشقت کو ”بیتیاں “ کا نام دیتا ہے۔ یہ اس کا باقی لکھنے والوں سے انتہائی منفرد روپ ہے۔ وہ کہتا ہے جو خود پر بیتا ہے اسے رقم کر دیا ہے۔ابدال بیلا کا ایک بے مثال ناول ”دروازہ کھلتا ہے“ 2006 میں شائع ہوا ۔ اس ناول کی خوبی یہ ہے کہ یہ اکیسویں صدی کے ضخیم ترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ یہ 1800 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ناول کو ادب میں وہ معتبر درجہ حاصل ہوا ہے جس کی خواہش ہر بڑا ادیب کرتا ہے۔ یہ کوئی روائتی ناول نہیں ہے بلکہ اس کے پشت پرسے بر صغیر پاک و ہند کی چار پانچ صدیاں جھانک رہی ہیں ۔اس سے ابدال بیلا کی تاریخی تہذیبی بصیرت کا روزن بھی وا ہوتا ہے۔اس ناول میں ہر نسل اپنے کیے کو دیکھ سکتی ہے اور ہر آنے والی نسل اپنے تہذیبی و شعوری ورثہ کا احیا کر سکتی ہے۔ اس ناول میں فاضل مصنف نے کوئی ماورائی لیاقت جھاڑنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی غیر حقیقی قوتوں سے مدد مانگی ہے۔ اس کا کل سرمایہ اور مرکز ومحور پاکستان ہے۔دھرتی کے اس سپوت نے دھرتی سے دھرتی تک کا سفر نہایت اعتماد سے مکمل کیا اور دنیائے ادب میں اپنے حصے کا چراغ رکھ دیا ہے۔یہ ادبی حسن کا شاہکار ، دل آویزاور مہر آمیز سخن پارہ اپنی شناخت میں بھی الگ تھلگ ہے۔ اس کا ہر کردار اپنی جگہ مضبوط پتھر ہے جو سانس بھی لیتا ہے اور آنکھ بھی رکھتا ہے۔ اس کا کردار اس معاشرے سے مکالمہ کرتا ہے ۔اس کے کرداروں کے مکالموں میں کرب بھی ہے خوشی بھی،رقت بھی ہے فرحت بھی اوروقار بھی ہے سوال بھی۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ضخیم ناول سے قاری کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں اور پڑھتے وقت قاری کو اپنی پسند کا مواد نہ ملے تو وہ اکتاہٹ محسوس کرتا ہے۔ ابدال بیلا کے ناولوں کی خوبی یہ ہے کہ ہر کردار ٹھہر ٹھہر کر بات کرتا ہے اور قاری کی انگلی آخری صفحے تک نہیں چھوڑتا۔پڑھنے والا اس کی تحریر میں اتنا گم ہو جاتا ہے کہ وقت پَرلگا کر سرک جاتا ہے اور قاری اس کے دریچے میں رہ جاتاہے۔ اب اس کا مطلب ہر گز ہر گز یہ نہیں کہ ابدال بیلا ہر تحریر کو طوالت بخش دیتا ہے ۔ اس کے کالم،مضامین اور افسانے اپنے وقت، کردار،موضوع اور ضرورت کے مطابق ہوتے ہیں جو ایک ہی نشست میں پڑھے جا سکتے ہیں۔گویا کردار ، موضوع اور اسلوب پر اسے مکمل دسترس ہے۔بلا شبہ ابدال بیلا عصر حاضر کا مہان قلم کار ہے جو ادبی دنیا میں ہمیشہ حیات رہے گا۔
فیس بک کمینٹ