آہ ہا۔ پیاری سہیلی کیا کہہ دیا؟ کہاں گئی وہ طاہرہ جو انیس سو پچانوے میں مری کی مال روڈ پہ قہقہے لگاتی چلتی تھی؟
سنو، ہنسی تو باقی ہے ابھی بھی مگر اب اس کی کھنکھناہٹ میں ان سب عورتوں کی آہ و بکا بھی لپٹی ہے جن سے ہم پچھلے تیس برس میں قریہ قریہ گھوم کر ملے اور ان کی ان کہی سنی۔ اور پھر ٹھان لی کہ اس آگ میں کودنا ہے، مجھے ہے حکم اذاں۔
تم نے کہا۔ دیکھو عورت کا مظلومیت نامہ اپنی جگہ مگر ہر عورت تو اس چکی میں نہیں پستی نا۔ ہم اور تم بھی تو ہیں مراعات یافتہ عورتیں۔ کیوں نہیں لکھتیں اپنے بارے میں اور ہمارے بارے میں؟
چلو دیکھے لیتے ہیں وہ کون سی مراعات ہیں جو ملیں ہمیں، تمہیں اور بہت سی ہم جیسیوں کو۔ ماضی میں جھانکنا پڑے گا ہمیں۔
پیدائش ہوئی تو دادا دادی نے ناک بھوں نہیں چڑھائی شاید۔
گھر میں اماں ابا نے آہ بھر کر نہیں کہا۔ ایک اور لڑکی۔
بچپن میں بھائی کو سائیکل ملی۔ اور ہمیں بھی ملی۔
سکول بھیجتے وقت یہ سوال زیر غور نہیں آیا کہ لڑکوں کی فیس ادا کریں گے تو واپس بھی آئے گی مگر اس لڑکی کی فیس۔ فضول کا خرچ۔
کھانا کھلاتے وقت امی نے بھائی کی پلیٹ میں بوٹی ڈالتے ہوئے ہماری پلیٹ میں بھی ڈالی، ہمیں محض شوربے پہ نہیں ٹرخایا۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پہ والدین نے یہ نہیں سوچا کہ کیوں قابل کریں لڑکی ذات کو۔ فائدہ تو سسرال اور شوہر اُٹھائے گا۔
نوکری کرنے کا مرحلہ آیا تو ابا راستے میں دیوار نہیں بنے۔ مگر وہ تو بھائی کے راستے میں بھی نہیں کھڑے ہوئے تھے۔
شادی کے لئے بالکل بیٹوں کی طرح مرضی پوچھی گئی اور منع کرنے پہ ایموشنل بلیک میلنگ نہیں ہوئی۔
ابا نے وراثت میں حصہ دیا۔ بیٹوں کو بھی دیا۔
بھائیوں نے چھوٹی چھوٹی بات پہ معترض ہو کر گولی نہیں ماری۔ وہ انسان کے بچے تھے شاید۔ یا ہم نے موقع نہیں دیا۔
شوہر نے نوکری کرنے دی۔ مگر نوکری کرنے کا فائدہ تو اس کو بھی ہوا کہ گھر میں خوشحالی تھی۔
بچوں کی تعداد کا تعین دونوں نے سوچ سمجھ کر کیا۔ پیدا تو ہم نے ہی کرنا تھے۔
پہننے اوڑھنے پہ کوئی پابندی نہیں تھی مگر شوہر بھی تو اپنی مرضی سے پہن اوڑھ رہے تھے۔
بات کرنے کی آزادی ملی۔ اور یہی آزادی شوہر کے پاس بھی تھی۔
شوہر نے شک کی بنیاد پہ عزت کے نام پہ قتل نہیں کیا۔ وہ تو ہم نے بھی نہیں کیا۔
کیا یہ سب مراعات تھیں جو ہمیں ملیں، تمہیں ملیں۔ یا ہم جیسیوں کو ملیں؟
سنو۔ ان مراعات کے باوجود بے شمار ایسے لمحات زندگی میں آئے جب ہم نے محسوس کیا کہ ہمارے پاس وہ سب نہیں جو ہمارے ساتھ کھڑے مرد کے پاس ہے۔ طاقت، اختیار، برتری، غرور، مقام، حیثیت، آزادی۔ اس کے ساتھ ساتھ عورت کو ملکیت سمجھنے کا مراق اور اجازت دینے /نہ دینے کی بساط جو مرد بچھاتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ عورت ایک مہرہ ہے اور چال چلنے کا حق صرف مرد کے پاس ہے۔
اس ناچیز کمتر کی رائے میں جن چیزوں کو مراعات سمجھا جاتا ہے وہ سب بنیادی انسانی حقوق ہیں جو بائی ڈیفالٹ ہر انسان کو ملنا ان کا حق ہیں۔ بدقسمتی سے جب مرد کو حاصل ہوں تو اس کا پیدائشی حق اور عورت کو اگر ملیں تو مراعات۔ کیونکہ عورت کا وجود پدرسری معاشرے میں ہر حق کے لیے مرد کے چشم ابرو کا محتاج ہے۔
کچھ بھی۔ کہیں بھی۔ آپ ہی آپ نہیں ملتا۔ کہیں رحم دل باپ کا خون جوش مارتا ہے تو کہیں انسان دوست شوہر فیصلہ کرتا ہے۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ عورت کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار اس کی اپنی ذات کی بجائے ایک مرد کے پاس کیوں ہو؟ اسے مرد کی طرح کا انسان کیوں نہ سمجھا جائے جس کی جھولی میں سب کچھ بائی ڈیفالٹ آ گرتا ہے۔
سوچا ہی کیوں جائے کہ لڑکی کیسے پلے بڑھے گی؟ کیا کھائے پیے گی؟ پڑھے گی کہ نہیں؟ نوکری کرے گی کہ نہیں؟ شادی کس کی مرضی سے ہو گی؟ کیسے رہے گی؟ کیسے اٹھے بیٹھے گی؟ کیسے زندگی گزارے گی؟
اور اگلا سوال یہ ہے کہ کیا انسان کو انسان کہنے سننے اور ماننے والوں کو لائق تحسین سمجھا جائے اور اس کا چرچا کرتے ہوئے انہیں پھولوں کے ہار پہنائے جائیں؟ نہیں ہر گز نہیں۔ ہمارے خیال میں تو یہ ان کی اپنی آزمائش ہے کہ وہ انسانیت کے کس درجے پہ فائز ہیں اور فائز ہیں بھی کہ نہیں؟
سو جناب اگر قبلہ سیدھا رکھنا چاہتے ہیں تو بس تصور کر لیجیے کہ ٹانگوں کے بیچ جو کچھ ہے، اس کو خاطر میں لائے بغیر ہر انسان بنیادی حقوق کے ساتھ کرہ ارض پہ زندگی گزارے گا۔ بحث ہی ختم۔
زندگی میں مسائل کو برابری کی سطح پہ بات چیت کے ذریعے حل کرنا سیکھیں۔ آقا غلام کے تعلق پہ انسان کا اصل کبھی اس درجے کو نہیں پہنچ سکتا جہاں میں اور تُو کا فرق مٹ جائے۔ حاکمیت اور ملکیت کی رشتے پہ پردے ڈال کر بھلے اسے مراعات کا نام دے دیں، لیکن حقیقت نہیں بدلے گی کہ یہ سب کچھ تو بائی ڈیفالٹ اسے ملنا چاہیے۔
پیاری سہیلی، آپ کی رائے / مشورہ سر آنکھوں پہ۔ برا نہ منائیے گا، ہم نے تو آپ کی آڑ لیتے ہوئے بہت سے اور لوگوں کا قبلہ سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں نا بہو کو کچھ کہنا ہو تو بیٹی کو چار سنا لو۔
سو وہی کام کیا ہے آج ہم نے!
خوش رہیے!
( بشکریہ :ہم سب ۔۔لاہور )
فیس بک کمینٹ