مسلم لیگ (ن) کے دو لیڈروں نے لاہور کی ایک تقریب میں اس خیال کا اظہار کیاہے کہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے اگر ملک کے تین بڑے لیڈر نواز شریف ، آصف زرداری اور عمران خان مل بیٹھیں تو کسی حل کی طرف پیش قدمی ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو مسائل سے نکالنے کا یہ واحد راستہ ہے ۔یہ تجویز دیتے ہوئے اگرچہ وزیردفاع خواجہ آصف اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثناللہ نے اپنی پوزیشن بھی بحال رکھی ہے اورنواز شریف کے ویژن کی بھی بات کی ہے۔ لیکن بنیادی نکتہ یہی ہے کہ اس اصول کو ماننا چاہیے کہ ملک میں جو طاقتیں یا پولیٹیکل پارٹیاں، عوام کی نمائندہ ہیں ، وہ نہ صرف اپنی طاقت منوائیں بلکہ یہ بھی تسلیم کریں کہ دوسری پارٹیوں کو بھی نمائندگی کا حق اسی ملک کے عوام کی طرف سے ملا ہے۔ ہماری ملکی سیاست میں یہ ایک عنصر بہت دیر سے غائب ہے۔
یہ تضاد 90 کی دہائی سے ہی دیکھا جاسکتاہے ۔ اس وقت نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان اسی قسم کی کشمکش تھی ۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کی سیاسی پوزیشن کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھے۔ البتہ ایک فوجی آمرکے ہاتھوں جلا وطنی کے دور میں یہ دونوں پارٹیاں مئی 2006 میں میثاق جمہوریت پر متفق ہوگئیں۔ اس کے تحت قومی سیاست کے بنیادی اصولوں پر اتفاق کیا گیا ۔ اب بھی ان کے درمیان اگرچہ کوئی مثالی تعلق نہیں ہے لیکن انہوں نے ایک ایسی ورکنگ ریلیشن شپ ضرور قائم کی ہے کہ ملک میں کوئی بڑا بحران پیدا نہیں ہونے دیا۔ یا وہ باہمی اختلاف کو کسی بحران کی وجہ بنانے سے گریزکرتی ہیں۔ قومی سیاست میں جب بھی کوئی چیلنج ہوتا ہے تو یہ مل کر چلنے پر تیار ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر جو 2018کے انتخابات کے بعد فوج کی براہ راست مداخلت سے چلنے والے ہائیبرڈ نظام کے خلاف بات چل رہی تھی۔ اس موقع پریہ دونوں پارٹیاں اکٹھی تھیں۔
اس کے بعد جب اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد حکومت سازی کا معاملہ آیا تو بھی ان پارٹیوں نے مل کر کام کیا ۔اور 2024کے انتخاب کے بعد عمران خان نے احتجاجی سیاست شروع کی اور اعلان کیا کہ وہ انتخابی نتائج کو نہیں مانتے تو ان دونوں پارٹیوں نے مل کر ملک کا انتظام سنبھالا اور حکومت سازی میں تعاون کیا۔ اس رویہ کو کسی حد تک ذمہ دارانہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ سیاستدان انتخاب میں شریک ہونے اور جیتنے کے بعد ملک میں حکومت قائم کرنے کی ذمہ داری سے فرار اختیار کرے گا تو یہ اچھی سیاسی روایت نہیں کہی جا سکتی ۔خاص طور سے دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بعض اصولی اختلافات کی بنیاد پر اگرچہ اقتدار میں حصہ نہیں لیا اور چند آئینی عہدے لینے کے بعد حکومت کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے یہ اعلان سامنے آتے رہتے ہیں کہ اگر حکومت نے مطالبے نہ مانے تو شاید یہ تعاون نہ چل سکے۔ اس کے باوجود پارٹی اس تعاون کو بڑی حوصلہ مندی سے نبھا رہی ہے۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں جب پاکستانی سیاست میں امریکہ سے آنے والے سیاسی اشارے کافی اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔اور ایک طرف ایک ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد کردہ ایک سفیر رچرڈ گرنیل مسلسل تحریک انصاف اور عمران خان کی حمایت میں ٹویٹ کر رہے ہیں۔ اور عمران خان کی رہائی کے لیے مہم جوئی کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف امریکی حکومت نے 18 دسمبر کو پاکستان کے میزائل پروگرام پر کام کرنے والی چار کمپنیوں پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس کے ایک روز بعد صدر جو بائیڈن کے مشیر جون فائنر نے کہا کہ پاکستان کا میزائل نظام امریکہ کی نیشنل سیکورٹی کے لئے خطرہ بن رہاہے۔ یعنی پاکستان ایسے لانگ رینج بلاسٹک میزائل بنا سکتا جو براہ راست امریکہ پر حملہ کرسکتے ہیں۔
یوں امریکی قومی سلامتی کے تحفظ کے حوالے سے جون فائنر نے بہت ہی بچگانہ اور ناقابل فہم فلسفہ پیش کیا۔لیکن سرکاری طور پر صرف دفتر خارجہ نے اس بیان کا جواب دیا اور فائنر کے بیان یا پابندیوں کو ناجائز اور بے بنیاد قرار دیا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے اس کا مناسب جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ البتہ پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زداری نے اپنی حکومت کا ساتھ دینے اور ملکی مفاد کا علم بلند کرنے کیلئے پوری سچائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ امریکہ ہمیشہ سے پاکستان کے میزائل و ایٹمی پروگرام کے خلاف رہا ہے ۔ ہم کبھی قبول نہیں کر سکتے کہ دھمکیوں کے ہتھکندوں سے ہم اپنی نیشنل سکیورٹی کو کمزور کریں۔ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام اور میزائل نظام کو بھارت جیسے بہت بڑے ہمسایہ ملک سے دفاع کے مقصد سے تیار کرتاہے۔ تنازعہ کی موجودہ صورت حال میں پاکستانی سلامتی کو بھارت سے مسلسل خطرہ لاحق ہے۔ اس لئے پاکستانی میزائل پروگرام دفاعی میکنزم ہے۔
حکومت میں نہ ہونے کے باوجود اس بھرپور اور پرزور طریقے سے اس قومی موقف کو بیان کرنا، ہمت اور حوصلے کی بات ہے ۔ اس دوران دیکھا گیا ہے کہ عمران خان نے امریکی پابندیوں اور الزام تراشی کے خلاف کوئی بیان دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حالانکہ انہوں نے اقتدار سے محرومی کے بعد اپنی سیاسی احتجاجی مہم امریکہ دشمنی پر استوار کی تھی اور اس کی بنیاد ایک سائفر کو بنایا گیا تھا۔ اس کے بارے میں عمران خان کا کہنا ہے تھا کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت گرانے کا امریکی ’حکم نامہ ‘تھا۔ اسی امریکی سازش کی وجہ سے ان کی حکومت گراکر شہباز شریف کی قیادت میں حکومت قائم کرائی گئی تاکہ بدعنوان سیاست دانوں کو اقتدار میں لایا جائے۔ البتہ اب امریکی حکومت نے براہ راست پاکستان کے قومی اثاثوں پر پابندیاں لگائی ہیں اور پاکستانی مفاد کو زک پہنچانے اور اس کی عالمی پوزیشن کمزور کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ’امریکہ مخالف ‘ عمران خان کو اس رویہ کی مذمت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔اس کے برعکس تحریک انصاف کے حامی اور کارکن توقع کر رہے ہیں یا پارٹی کے سوشل میڈیا اکٹیویسٹ ایسی مہمات چلا رہے ہیں جس سے یوں لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بنتے ہی حکومت عمران خان کو رہا کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ یہ امید کرتے ہوئے پاکستان کی خود مختاری کا اصول یا امریکی مداخلت مسترد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ اس پس منظر میں عمران خان یا تحریک انصاف کے کسی لیڈر کو یہ حوصلہ نہیں ہوا کہ ٹرمپ سے امیدیں لگانے کے باوجود پاکستان کی خود مختاری اور ایٹمی پروگرام کی حمایت میں بیان دے سکیں۔ یہ افسوسناک صورت حال ہے کیونکہ قومی مفاد کے تحفظ کے لیے بعد بنیادی اصولوں پر ملک کی ہمہ قسم سیاسی قیادت کو اتفاق کرنا چاہئے اور انہیں اپنے گروہی مفادات کے ساتھ ملاکر نہیں دیکھنا چاہئے۔ پاکستان میں یہ شعور اور سیاسی بلوغت دیکھنے میں نہیں آرہی۔ کیونکہ اس کے لیے جس سیاسی سوجھ بوجھ اور باہمی احترام کے ضرورت ہے، وہ ہماری سیاست کا حصہ نہیں ہے ۔
اس صورتحال میں خواجہ آصف اور رانا ثنااللہ کابیان کیا ہؤا نکتہ اہم ہے کہ ملک کے تین بڑے لیڈر اگر مل بیٹھیں اور باقی لیڈروں کو بھی ساتھ ملا لیں تو ایسا کوئی قومی پلیٹ فارم بنایا جا سکتا ہے کہ جس میں مل جل کر آگے چلنے کا راستہ تلاش کیا جا سکے۔ دوسری طرف بلاول بھٹو کے بیان سے یہ ایک اصول وضع ہوتا ہے کہ قومی مفاد کے سوال پر سیاسی لیڈروں کو آپس میں لڑنے کی بجائے بعض بنیادی اصولوں پر متفق ہونا چاہئے تاکہ کسی تنازعہ کی صورت میں پوری قوم ہم آواز ہو۔ یہ طے کرلیا جائے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے، ان بنیادی اصولوں پرکبھی کمپرومائز نہیں ہوگا۔ اگر ایسے اصول وضع کرلیے جائیں تو وقتی سیاسی ضرورتوں کے لیے کسی لیڈر کو کوئی ایسا نعرہ ایجاد نہیں کرنا پڑے گا جس میں کسی ملک کے خلاف رائے تیار کرکے اپنے لیے جگہ بنانے کی کوشش کی جائے۔ نہ ہی یہ دعوے سننے میں آئیں گے کہ کون امریکہ کا ایجنٹ ہے اور کس نے اسے ’ابسولیٹلی ناٹ‘ (ہرگز نہیں)کہہ دیا تھا۔
تاہم دیکھا جا سکتا ہے کہ کل تک امریکہ کو ’ابسولیٹلی ناٹ‘ کہنے والے ، امریکہ ہی سے کہہ رہے ہیں کہ آئیے ہماری مدد کیجئے ہماری لیڈر کو رہا کرا دیجئے۔ تمام سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو ان تضادات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ قومی سیاست میں کچھ ہلچل ہو اور پیش رفت ہو سکے۔
2جنوری کو تحریک انصاف اور حکومتی پارٹیوں کے درمیان مذاکرات شروع ہونے والے ہیں۔ پھر سے مفاہمت کی امید کی جا رہی ہے ۔ کچھ اچھی باتیں بھی سننے میں آئی ہیں۔ لیکن جمعہ کو آئی ایس پی آر کے ڈی جی نے تحریک انصاف پر اشتعال انگیز طریقے سے الزام تراشی کی اور واضح کیا کہ چونکہ یہ پارٹی تشدد کی سیاست کرتی ہے اور جبر کے ذریعے اپنی بات منوانا چاہتی ہے لہٰذا ایسے سیاسی عناصر کو اس ملک کے معاملات میں کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی باتیں سیاسی پارٹیوں کے مذاکرات پر منفی اثر مرتب کرسکتی ہیں۔ یہی درحقیقت قومی سیاسی لیڈر شپ کا امتحان بھی ہوگا کہ کیا وہ فوجی ترجمان کے مؤقف کو مسترد کرنے کی ایسی راہ نکال سکتی ہیں کہ بحران میں اضافہ کی بجائے اس سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا جاسکے۔ سیاسی لیڈروں کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ فوج اگر طاقت کا اہم مرکز اور اسٹیک ہولڈر ہے تو اس کے تقاضوں کو کیسے آئینی چھتری کے اندر رہتے ہوئے جگہ دی جاسکتی ہے۔
یہ مقصد للکارنے یا تصادم پر اکسانے سے حاصل نہیں ہوگا۔ اس کے لیےزیرکی، معاملہ فہمی ، سیاسی سوجھ بوجھ اور باہمی احترام ضروری ہے۔ متفقہ قومی مفادات کی صراحت کرنے اور پاکستان کے اثاثوں و ضرورتوں کے بارے میں بعض متفقہ اصولوں پر اتفاق کرنے سے یہ مقصد حاصل کرنا آسان ہوسکتا ہے۔ یہی ملکی سیاسی لیڈر شپ کا امتحان ہے۔ قوم کی بے یقینی ختم کرنے کے لیے ایسے وسیع تر مکالمہ کا آغاز ہونا چاہئے جس میں فوج کی رائے کو بھی سنا جائے۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ