التمش روڈ پر ایک عمارت تھی جس پرہمارے بچپن میں پیپلزپارٹی کاجھنڈا لہراتاتھا۔اسی عمارت سے احسان صاحب اپنے بچوں کو لے کر ہمارے سکول کی جانب آتے تھے ۔ احسان صاحب کو میں اپنے سکول کے زمانے سے دیکھ رہاتھا لیکن پہلے آپ کو یہ بتادوں کہ التمش روڈ کہاں تھی اور اس سڑک پر پیپلزپارٹی کے جھنڈے والا یہ گھرکہاں تھا۔ڈیرہ اڈا سے جو سڑک صدربازار کی جانب جاتی ہے اسے التمش روڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ہمارے بچپن کے زمانے میں اس سڑک پر ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس کے صحن میں لگے پنکھے سڑک سے گزرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے اسے ٹیناں والی مسجد کہا جاتا تھا ۔ اب وہ مسجد ٹین سازاں کے نام سے ایک دومنزلہ خوبصورت مسجد میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ٹینوں والی مسجد اسے اس لیے کہا جاتا ہے کہ جس جگہ وہ مسجد ہے وہاں بہت سی دکانیں ٹین سازروں کی ہیں جو ایئر کولر بھی بناتے ہیں اور بالٹیاں اور دوسرا سامان بھی۔ اسی سڑک پر آگے چل کر گجر کھڈہ موجودہے۔ گجروں سے موسوم یہ پرانی آبادی قیام پاکستان سے پہلے کی ہے اور اسی آبادی میں لب سڑک چندمکانات پرانی طرز تعمیر کے اب بھی موجودہیں جن پر لکڑی کابہت سا کام قیام پاکستان سے پہلے کے ہنر مندوں کی یاد دلاتا ہے۔اس آبادی میں قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے آنے والے پنجابی آباد ہوئے تھے ۔انہی عمارتوں میں ایک عمارت ایسی تھی جس پرپاکستان پیپلزپارٹی کا سہ رنگا جھنڈا لہراتا تھا اور یہ جھنڈا دور سے ہی سب کو اپنی جانب متوجہ کرتاتھا۔
میں نے یہ جھنڈا جس زمانے میں دیکھنا شروع کیا اس وقت ابھی بھٹو صاحب کا اقتدار ختم نہیں ہواتھا۔ 5جولائی 1977ءکے بعد بھٹو حکومت ختم ہوئی تو پیپلزپارٹی کے جھنڈے والے عتاب کا شکارہوگئے۔ ہم نے بہت سے گھروں پر لگے جھنڈے غائب ہوتے دیکھے۔ پیپلزپارٹی کے ایک دودفاتر ہمارے محلے میں بھی موجودتھے جہاں لوگوں کی رونق لگی رہتی تھی۔ پیپلزپارٹی کے جھنڈے بھی لہراتے تھے۔ لیکن 5جولائی کے بعد وہ سب دفترویرا ن ہوگئے اور جھنڈے بھی عنقا ہوگئے۔4اپریل 1979ءکو ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلزپارٹی اوراس کے کارکن مزید زیرعتاب آئے۔جو دوچارجھنڈے ابھی کہیں کہیں لہراتے نظرآتے تھے وہ بھی غائب ہوگئے یا غائب کردیئے گئے۔لیکن التمش روڈ والی اس عمارت پر جھنڈا اسی طرح لہراتارہا۔جس گھر پر یہ جھنڈا لہراتا تھا اس پر احسان الحق مغل صاحب کانام درج تھا۔احسان الحق مغل میرے ہم جماعت ظفراقبال مغل کے والد تھے۔احسان صاحب ظفر اوراس کے چھوٹے بھائی عارف کو روزانہ خود سکول چھوڑنے آتے تھے اور واپسی پربھی وہ اپنے بچوں کے منتظرہوتے تھے۔دونوں کے بستے انہوں نے سائیکل پرلٹکائے ہوتے تھے اور سائیکل کا ہینڈل تھامے آہستہ آہستہ سڑک کے کنارے چلتے تھے اور ان کے دونوں بچے بستوں کے بوجھ سے بے نیاز ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ان کاایک مخصوص انداز تھا جو آج بھی میری نظروں کے سامنے ہے۔ وہ ایک مرنجاں مرنج طبعیت رکھنے والے انسان تھے۔سیاسی مباحثوں میں وہ شاید اونچا بولتے ہوں لیکن میں نے انہیں ہمیشہ دھیمے لہجے میں بات کرتے دیکھا۔
احسان الحق مغل 1936ءمیں جالندھر میں پیداہوئے ۔وہ ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے انہوں نے لاہور کے مہاجر کیمپ میں قیام کیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد انہیں فیصل آباد کے مہاجر کیمپ میں منتقل کردیاگیا اور وہاں سے وہ ملتان آگئے اور اسی مکان میں مقیم ہوئے جس کاابھی میں نے حوالہ دیا۔شاید یہ کسی ہندو کابنایاہوا مکان تھا۔احسان صاحب کا شمار پیپلزپارٹی کے بنیادی کارکنوں میں ہوتاتھا۔وہ جئے بھٹو کہنے والی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو رفتہ رفتہ اپنی پارٹی کی طرح ماضی کاحصہ بنتی جارہی ہے۔ اپنے ہم جماعت ظفراقبال سے ملنے کے لیے میں بھی بارہا اس گھر میں جاتاتھاجس پر پارٹی کا پرچم لہراتا تھا ۔ وہیں احسان صاحب سے بھی ملاقات ہوتی۔ وہ ریلوے کنٹریکٹر تھے اور بھٹودور میں انہیں ریلوے پلیٹ فارم پر کچھ ٹی سٹالز کے ٹھیکے ملے تھے۔پارٹی کا اقتدار ختم ہواتووہ ٹھیکے بھی ختم کردیئے گئے۔ احسان صاحب کے ساتھ ملاقاتوں میں نے بھٹوصاحب اور ان کے زمانے کی بہت سے واقعات سنے۔ اس زمانے کے پرانے کارکنوں اور رہنماﺅں میں احسان صاحب کا ایم اے گوہیر ، ملک مختاراعوان،اشفاق احمد خان اور صاحبزادہ فاروق علی خان کے ساتھ قریبی تعلق تھا۔ اب تک میں نے انہیں اپنے بچپن کی یادوں کے حوالے سے یادکیا۔ سکول اور کالج کازمانہ ختم ہوا تو میں1983ءمیں صحافت سے وابستہ ہوگیا۔ اب چچا احسان کے ساتھ ملاقاتوں کا ایک اور بہانہ ہوتا تھا میں کسی نہ کسی خبر کی تصدیق کے لیے ان سے ملتا تھا ۔ ان کے ایک بھائی اکرام الحق مغل گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس ( جی ٹی ایس )سے منسلک تھے اور وہاں مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے تھے۔
احسان صاحب سے میری آخری ملاقات وسیب ٹی وی کے زمانے میںہوئی۔ 2008یا 2009ءمیںبھٹو صاحب کی سالگرہ کے موقع پر ایک ٹاک شو میں احسان الحق مغل اور ملک مختاراحمد اعوان کو مدعو کیاگیا۔ اس زمانے میں ان کی عمر 70برس سے زیادہ تھی لیکن وہ ہوش و حواس میں تھے۔ یادداشت ان کی کسی حد تک مجروح ہوچکی تھی لیکن پھربھی انہوں نے بھٹو صاحب کی یادوں کے حوالے سے زیادہ تو نہیں لیکن مختصر مگر خوبصورت گفتگو کی۔ زیادہ اس لیے نہیں کہ ٹی وی کیمرے کے سامنے بیٹھنے کا ان کاپہلا تجربہ تھا اور وہ کیمرے کے سامنے خودکو مشکل میں محسوس کررہے تھے۔ دوتین ماہ قبل نامور ماہر تعلیم اور دانشور ڈاکٹر صلاح الدین حیدر نے اپنے پرانے محلے گجر کھڈہ کی ایک عمارت کی تصویر فیس بک پر لگائی مجھے شبہ ہوا یہ احسان صاحب والے گھر کی تصویر ہے پھر مجھے یاد آیا کہ صلاح الدین حیدر صاحب کا بچپن بھی تو اسی محلے میں گزرا ہے۔میں نے احسان الحق مغل کانام لیاتو وہ چونک گئے اورپھراحسان صاحب کی یادوں کے حوالے سے کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔طے یہ ہوا کہ میں کسی روز ڈاکٹر صلاح الدین حیدر کی احسان صاحب سے ملاقات کراﺅں گالیکن اس کی مہلت ہی نہ ملی۔ جون کے پہلے ہفتے میںان کے چھوٹے صاحبزادے عارف مغل نے مجھے فون پربتایا کہ احسان صاحب 5جون کو82 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔مجھے یہ اطلاع ان کی وفات کے دوروز بعد دی گئی ۔عارف بتار ہے تھے کہ ابو آپ کو بارہا یاد کرتے تھے ۔ان کا آخری وقت کیسا گزرا ۔ وہ کن عوارض کا شکاررہے۔ یہ پوچھنے کی مجھ میں بھی ہمت نہیںتھی ۔میری نظروں کے سامنے التمش روڈ والا مکان اور اس پر لہراتا پیپلزپارٹی کاجھنڈا تھا۔ اور اس جھنڈے کے ساتھ معدوم ہوتا احسان صاحب کا چہرہ تھا۔ پیپلزپارٹی کے مخلص کارکن ایک ایک کر کے رخصت ہوگئے۔ اب صرف دکانیں سجی ہیں مفادات کاکھیل ہے اور پارٹی کے نئے بیانیے میں مخلص کارکنوں کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی ۔ ایک مہینہ ہونے کو ہے کسی کو معلوم ہی نہیں کہ جس کے گھر پر بھٹو کا جھنڈا لہراتا تھا وہ خود بھی بھٹو کے پاس چلا گیا ہے ۔
فیس بک کمینٹ