”پاکستان اسلام کا مضبوط قلعہ ہے اور دنیابھر میں مسلمانوں پر جہاں کہیں بھی ظلم ہوتا ہے تو اس کے خلاف پہلی آواز پاکستان سے اُٹھتی ہے، پاکستانی ایک غیرت مند قوم ہیں اور مغربی سازشوں کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں“۔ میں اپنے ایک پاکستانی پروفیسر دوست کی یہ بات سن کر مسکرایا اور خاموش رہا۔ یہ پروفیسر میرے ساتھ ملتان سے دوبئی تک کی پرواز میں ہم سفر تھے۔ میری خاموشی سے ان کی تسلی نہ ہوئی، کہنے لگے کہ کیا آپ میری بات سے متفق نہیں ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ میرے متفق ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے، حقیقت تو حقیقت ہی رہے گی۔
انہوں نے اگلا سوال کیا کہ آپ لندن میں رہتے ہیں اس لئے یہ بتائیے کہ انگریز ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ میں نے استفسار کیا کہ ہمارے بارے میں سے کیا مطلب؟مسلمانوں کے بارے میں یا پاکستانیوں کے بارے میں؟ کہنے لگے پاکستانیوں کے بارے میں۔ میں نے کہا کہ انگریزوں کے پاس اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ پاکستانیوں کے بارے میں سوچیں اور نہ ہی دوسری اقوام یا ملکوں کے بارے میں سوچنا ان کے مزاج میں شامل ہے۔یہ تو پاکستانیوں کا مشغلہ ہے کہ وہ پاکستان میں بیٹھے انگریزوں یا امریکیوں کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتے اور اندازے لگاتے رہتے ہیں۔ جب انگریز برصغیر پر حکومت کرتے تھے تو وہ مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے بارے میں سوچتے اور اس کے مطابق حکمت عملی ترتیب دیتے تھے۔ ہندوستان چھوڑنے کے بعد گوروں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور پھر انہیں اس بات سے بھی غرض نہیں رہی کہ دوسری قومیں انگریزوں کے بارے میں کیا سوچتی ہیں۔ مغربی ممالک میں مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان میں قوت برداشت نہ ہونے کے برابر ہے۔ جوش جذبات میں ذرا سے اختلاف پر یہ لوگ اپنے مسلمان بھائی کی گردن کاٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ خوش فہم اتنے ہیں کہ اپنے احساس کمتری کو چھپانے کے لئے خود کو دنیا کی سب سے زیادہ دیانتدار، باصلاحیت اور غیرت مند قوم سمجھتے ہیں اور اس مسلسل غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ پوری دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ میری بات سن کر پروفیسر صاحب کی طبیعت بیزار ہو گئی اور انہوں نے اپنی نشست سے سر لگا کر آنکھیں موند لیں۔
میں سوچنے لگا کہ ہم پاکستانی کب تک حقیقت سے آنکھیں چراتے اور خوش فہمیوں سے کام چلاتے رہیں گے؟ مغربی ممالک اور خاص طور پر طاقتور ملکوں کو اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہے کہ جب تک مسلمان ملکوں میں مسلکوں اور عقیدوں کی کشمکش جاری رہے گی انہیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں۔انگریز ہوں یا امریکی وہ مسلمانوں اور خاص طور پر مسلمان حکمرانوں کی نفسیات سے پوری طرح آگاہ ہوچکے ہیں اور انہیں اس سچائی کا بھی ادراک ہو چکا ہے کہ جب تک مسلمان ملکوں کے عوام مسلک اور عقیدے کے اختلاف پر ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے رہیں گے اور مذہبی ٹھیکیداروں یعنی جاہل ملاؤں کے اشاروں پر اپنی جان قربان کرنے کو اعزاز سمجھیں گے اس وقت تک کسی غیر مسلم ملک کو کسی مسلمان ملک پر قبضے کی ضرورت نہیں۔ جب تک عراق یہ سمجھے گا کہ ایران اس کا سب سے بڑا دشمن ہے یا شام اور یمن سعودی عرب کے لئے خطرہ ہیں یا افغانستان اپنے ہمسایہ ملک پاکستان کا دوست نہیں بلکہ سب سے بڑامخالف ہے تو اس وقت تک امریکہ، برطانیہ،جرمنی، فرانس، سویڈن اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا جدید اسلحہ، جنگی ساز و سامان اور دفاعی مصنوعات کی ایکسپورٹ اور کاروبار ترقی کرتا رہے گا۔ امریکہ، برطانیہ یا دیگر ترقی یافتہ اور خوشحال ملکوں کے عوام ووٹ کے ذریعے اپنے حکمرانوں کا انتخاب اس یقین اور اعتبار کے ساتھ کرتے ہیں کہ وہ اقتدار سنبھال کر ملک و قوم کے مفادات کا تحفظ کریں گے جو کہ وہ کرتے بھی ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلمان ملکوں اور خاص طور پر پاکستان کے حکمران اقتدار میں آ کر ملک و قوم کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے میں لگ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کے کرپٹ سیاستدان اور حکمران ہر دور میں مضبوط سے مضبوط ترین اور ملک و قوم کمزور سے کمزور ترین ہوتے چلے گئے۔
کرپشن کی دیمک نے ہمارے وطن کے تمام تر وسائل کو کھا لیا ہے۔ معاشی خوشحالی کا خواب کھوکھلا ہو کر رہ گیا ہے۔ ہم جن ملکوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں وہ مختلف ادوار حکومت میں خطیر امداد پاکستان کو فراہم کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 2018ء میں برطانوی حکومت کے ایک ادارے ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ نے پاکستان کو 302ملین پاؤنڈ کی امداد فراہم کی تھی۔ اس امداد کا 53فیصد حصہ صحت اور تعلیم، 29فیصد اکنامک ڈویلپمنٹ، 10فیصد گورننس اینڈ سیکورٹی اور 5فیصد موسم اور ماحولیات کے شعبے کے لئے مختص کرنے کی شرط عائد کی گئی تھی۔ اب برطانوی پارلیمنٹ کی سلیکٹ کمیٹی ڈیلی میل کے اس الزام کی تحقیقات کر رہی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اس امداد کی رقم کا بڑا حصہ شہباز شریف اور ان کی فیملی نے غبن کر لیا تھا۔ہمارے صحافیوں اور خاص طور پر انویسٹی گیٹیو رپورٹرز اور ایجنسیوں کو چاہئے کہ وہ ایوب خان کے دور حکومت سے لے کر عمران خان کے عہد اقتدار تک پاکستان کو ملنے والی غیر ملکی امداد اور قرضوں کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کریں کہ ہمارے ملک کے خلاف سازشیں کرنے والے کن کن ممالک نے مختلف ادوار میں امداد اور قرضے فراہم کئے تھے اور کیا کھربوں روپے کی یہ رقوم واقعی ان مقاصد کے لئے استعمال کی گئیں جن کے لئے یہ ”بھیک“ حاصل کی گئی تھی۔ اگر یہ تفصیلات عوام کے سامنے آ جائیں تو یہ حقیقت بھی منکشف ہو جائے گی کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران ملک و قوم کے مفادات کے تحفظ میں کس حد تک مخلص رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو اس لئے بھی غیر ملکی امداد ملنے کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں کہ امداد دینے والے ممالک کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ ان کی خطیر رقوم سے پاکستان کے عوام کا نہیں بلکہ حکمرانوں کا بھلا ہو گا۔ برطانیہ ہو یا امریکہ وہ دوسرے ملکوں کے خلاف سازشیں کرنے کی طرف کم اور اپنے ملکوں کو سنوارنے کی طرف زیادہ دھیان دیتے ہیں اور حالیہ تاریخ گواہ ہے کہ ان دونوں ممالک نے افغانستان سمیت جہاں کہیں بھی اپنی سازشوں کا جال بچھانے کی کوشش کی ہے وہاں انہیں ہزیمت ہی اٹھانا پڑی ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کی بساط بچھانے والوں کو اس حقیقت کا بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ قانون قدرت بھی اپنی جگہ اٹل ہے۔ فطرت کا انصاف مصلحت سے بالاتر ہے۔ جو ملک اور قوم ناانصافی اور ظلم کو فروغ دیتے ہیں قدرت کی طرف سے ان کے مقدر میں زوال کی راہ ہموار کر دی جاتی ہے۔ اللہ صرف ربّ المسلمین نہیں بلکہ ربّ العالمین ہے۔ وہ سب سے اعلیٰ منصف اور رحیم ہے۔ خالق کائنات ان معاشروں اور ملکوں پر رحم فرماتا اور اپنی رحمتیں نازل کرتا ہے جہاں انصاف اور عدل کی بالادستی ہو۔ وہ چونکہ ربّ العالمین ہے اس لئے وہ اس معاملے میں مسلم یا غیر مسلم معاشروں کی تخصیص بھی نہیں کرتا۔ ہم اگر مسلمان ممالک اور ”کافرملکوں“ کے نظام عدل و انصاف پر نظر ڈالیں تو ہمیں مغربی ملکوں کی خوشحالی اور مسلم ملکوں کی بدحالی کے اسباب کی فوراً سمجھ آ جائے گی اور پھر شاید ہم یہ شکایت کرنا بھی چھوڑ دیں گے کہ طاقتور ممالک ہمارے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور ہمیں اس بات کا بھی تجسس نہیں رہے گا کہ انگریز ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟۔