روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اتوار کو وزیر دفاع اور روس کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف کو حکم دیا ہے کہ وہ روس کی نیوکلیئر مزاحمتی فورسز کو تیار رہنے کا حکم دیں۔ یہ حکم ایک ایسے وقت میں دیاگیا ہے جب یوکرائن پر حملہ کے دوران روسی افواج کو غیر متوقع طور سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یورپی یونین ، نیٹو اور امریکہ سمیت متعدد ممالک نے روس پر سخت پابندیاں عائد کرکے صدر پوتن کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔
کسی بڑی طاقت کی طرف سے اپنی افواج کو ایٹمی حملہ کی تیاری کا بالواسطہ حکم دینا ایک سنگین واقع ہے جس کے عالمی امن پر سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ متعدد ماہرین یہ واضح کررہے ہیں کہ عسکری قیادت کو ایٹمی قوت استعمال کرنے کے لئے تیار رہنے کا حکم دینے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ صدر پوتن یوکرائن یا کسی دوسرے ملک پر ایٹمی حملہ کرنے پر غور کررہے ہیں۔ اس کی بہت سادہ سی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ روس بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ ایسا کوئی اقدام سخت جوابی کارروائی کا سبب بنے گا اور روس بھی جوابی ایٹمی حملوں سے محفوظ نہیں رہے گا۔ روسی صدر اپنے ملک کی طاقت اور اپنے عزم و حوصلہ کی دھونس جمانے کے بارے میں خواہ کتنے ہی جنونی ہوں لیکن وہ اس قدر فاتر العقل نہیں ہوسکتے کہ دنیا کو ایٹمی جنگ کی طرف دھکیلنے کا سبب بنیں۔
تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صدر پوتن اور روسی قیادت کو اچھی طرح اس بات کا علم ہے کہ ایٹمی جنگ شروع نہیں کی جاسکتی کیوں کہ اس میں کوئی جیت نہیں سکتا بلکہ ایسا کوئی قدم دنیا کو سگین تباہی کی طرف لے جانے والا ثابت ہوگا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ انہیں مسلمہ ایٹمی طاقت ہونے اور دنیا میں جوہری ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ رکھنے کے باوجود بالواسطہ طور سے اپنے یورپی و امریکی مخالفین کو یہ ’پیغام‘ دینا پڑا ہے کہ روس جوہری طاقت ہے اور وہ بوقت ضرورت انہیں استعمال کرنے کا اقدام کرسکتا ہے۔ اس کی سادہ سی وضاحت یہ کی جاسکتی ہے کہ صدر پوتن کا اصل مقصد خوف کی فضا کو بڑھا کر یورپی اتحاد میں رخنہ ڈالنا ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ اس قسم کی اطلاعات یورپی رائے عامہ پر اثر انداز ہوں گی جہاں پہلے ہی اینٹی وار لابی بہت مضبوط ہے جو کسی ایٹمی جنگ کے اندیشے کی وجہ سے متحرک ہوسکتی ہے اور یورپ و امریکہ کو روس کے خلاف سخت اقدامات سے باز رکھنے میں روس کی معاون ہوسکتی ہے۔ اس اعلان کا دوسرا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ ایسا اعلان کرکے روس، امریکہ اور یورپ کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اب اس نے یوکرائن میں اپنے اہداف و مقاصد حاصل کرنے کا تہیہ کیا ہؤا ہے ۔ اس لئے سب کے لئے یہی بہتر ہوگا کہ اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے اور روس کو کسی دشواری کے بغیر اپنے اہداف حاصل کرکے کیف میں ایسی حکومت قائم کرنے کا موقع د یاجائے جو مستقبل قریب میں ماسکو کو چیلنج کرنے اور اس کی اعلیٰ قوت کو نظر انداز کا حوصلہ نہ کرے۔ روس کے خیال میں کیف میں بیلا روس قسم کی ماسکو کی مطیع و فرماں بردار حکومت اس کے وسیع تر مفاد اور دنیا کے امن کے لئے راحت کا پیغام ہوگی۔
یہ پیغام سامنے آنے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوگا کیا جوہری تیاری کے بارے میں حکم کے ذریعے صدر پوتن نے جو پیغام دینے کی کوشش کی ہے ، اسے اسی طور سے سمجھ لیا جائے گا اور زمینی حالات روس کی مرضی و خواہش کے مطابق طے پاجائیں گے۔ یوکرائن اور یورپی دارالحکومتوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس پیغام سے سراسمیگی ضرور محسوس کی گئی ہے لیکن یورپ کی قیادت اور رائے عامہ اسے بھی روسی صدر کے ناجائز جارحانہ اقدامات کا ایک حصہ سمجھتی ہے اور اس دھمکی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر راضی نہیں ہے۔ روس کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کا ذکر کرکے جو پیغام دیا گیا ہے اسے ایک دوسرے طریقے سے بھی سمجھا جاسکتا ہے جو روس کی توقعات سے بالکل برعکس ثابت ہوگا۔ یعنی امریکہ و یورپ یہ اندازہ کریں کہ روس کو یوکرائن میں مزاحمت کی وجہ سے یہ سنگین اور اشتعال انگیز اعلان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ اس لئے یوکرائن کو تنہا چھوڑنے کی بجائے اس کا مزید مستعدی سے ساتھ دیا جائے ۔ یوں روسی جارحیت کا منہ موڑ کر یوکرائن کو واقعی روسی پیش قدمی کے خلاف قلعہ بنا لیا جائے۔ اگر اس قیاس کی بنیاد پر سیاسی حکمت عملی استوار کی گئی تو اس کا نتیجہ روس کی توقعات کے برعکس بھی نکل سکتا ہے۔ روس یوکرائن کو غیر مسلح کرنا چاہتا ہے اور اس کی نیٹو میں شمولیت کے خلاف ہے ۔ ولادیمیر پوتن کا کہنا ہے کہ جب نیٹو نے ان کی اس پریشانی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تو ان کے پاس اس انتہائی اقدام کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا لیکن درحقیقت نیٹو اور امریکہ روس سے اس سوال پر بات چیت کے لئے تیار تھے لیکن ماسکو نے یوکرائن کی سرحد پر ملٹری بلڈ اپ کم کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ۔
روس کی جوہری دھمکی سے عین پہلے روسی مرکزی بنک کے اثاثے منجمد کرنے اور متعدد روسی بنکو ںکو ادائیگی کے عالمی نظام سویفٹ سے الگ کرنے کا قدام کیا جاچکا تھا۔ اس اعلان کے بعد پورے یورپ کی فضائی حدود کو ہر قسم کے روسی طیاروں کے لئے بند کردیا گیا ہے۔ پابندی کے تحت صرف حکومتی طیارے یا سرکاری ائیر لائن ہی اس سے متاثر نہیں ہوگی بلکہ امیر روسیوں کے نجی طیارے بھی یورپی فضامیں پرواز نہیں کرسکیں گے۔ اس کے ساتھ ہی27 رکنی یورپی یونین نے اپنی تاریخ میں پہلی بار یوکرائن کے لئے اسلحہ خریدنے کے لئے فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے خبر آئی ہے کہ یوکرائن کے صدر وولودیمیر ذیلنسکی نے یورپی یونین میں شمولیت کی باقاعدہ درخواست دی ہے۔ ان اطلاعات کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روس کے یورپی حریف جوہری تیاری کی دھمکی کے بعد پسپائی اختیار کرنے کی بجائے روس کا بائیکاٹ کرنے کے معاملہ پر زیادہ یکسوئی سے کام کررہے ہیں۔ یوکرائن میں مزاحمت کی کامیابی کے بعد یوکرائن نیٹو کا رکن بننے کی درخواست بھی دے سکتا ہے اور روس کے پاس اس سچائی کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا ۔ اور یوکرائن کے ساتھ دشمنی کا ایک دائمی رشتہ استوار ہوجائے گا۔ اگر ایسے حالات رونما ہوتے ہیں تو اس میں ہر لحاظ سے روس کا خسارہ ہوگا۔
یوکرائن جنگ کا جائزہ لیا جائے تو اندزوں کی غلطیوں ہی کی وجہ سے حالات موجودہ خطرناک نہج تک پہنچے ہیں۔ پہلے تو امریکہ اور نیٹو نے 1991 اور اس کے بعدنیٹو کو مشرقی یورپ کی طرف توسیع نہ دینے کے وعدے کی خلاف ورزی کرکے غلط اندازے قائم کئے تھے۔ یقین دہانیوں کے باوجود مشرقی یورپ کا ایک کے بعد دوسرا ملک نیٹو میں شامل ہوتا رہا کیوں کہ امریکہ و نیٹو یہ سمجھ رہے تھے کہ سویت یونین ٹوٹنے کے بعد اس کی طاقت کا خاتمہ ہوچکا ہے اور اب اسے کسی بھی حد تک دبایا جاسکتا ہے۔ اندازے کی دوسری غلطی یوکرائن کی سرحد پر روسی فوجوں کے اجتماع کے بعد کی گئی۔ امریکہ اور نیٹو نے ماضی قریب میں کی گئی غلطیوں کا جائزہ لے کر روس کی جائز سیکورٹی ضرورتوں کو تسلیم کرنے اور یوکرائن کی نیٹو رکنیت کی کوشش کو سنگین مسئلہ سمجھنے سے انکار کیا۔ صدر جو بائیڈن تسلسل سے یہی کہتے رہے کہ نیٹو میں یوکرائن کی شمولیت مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ روس کا دھمکی آمیز رویہ ہے۔ اسے یوکرائن کی سرحد سے اپنی فوجیں واپس بلانی چاہئیں۔ نتیجتاً روس کو یوکرائن پر حملہ کا انتہائی اقدام کرنا پڑا۔
صدر پوتن یوکرائن کونیٹو رکنیت سے باز رکھنا چاہتے تھے۔ وہ یہ مقصد محدود فوجی آپریشن کے ذریعے بھی پورا کرسکتے تھے لیکن انہوں نے یوکرائن پر چاروں طرف سے بھرپور حملہ کرکے عام لوگوں کی نظر میں خود کو جارح اور یوکرائن کو مظلوم کے طور پر پیش کیا۔ اس کے علاوہ دو روز قبل یوکرائینی فوج کو ہتھیار پھینکنے یا اپنی ہی حکومت کے خلاف بغاوت کا مشورہ دے کر انہوں نے ایک بار پھر سنگین غلطی کی۔ اسے یوکرائن کے بارے میں روسی صدر کے خفیہ عزائم کا پرتو سمجھا گیا۔ بظاہرصدر پوتن نے اپنے ملک کی فوجی قوت اور یوکرائنی فوج و قیادت کی مزاحمت کے بارے میں بھی سطحی اور غلط اندازے قائم کئے۔ اسی لئے اب وہ ایک ایسی جنگ میں پھنس چکے ہیں جسے اگر فوری طور سے ختم نہ کیا جاسکا تو یہ روسی افواج کے لئے افغانستان جیسا تجربہ ثابت ہوسکتا ہے۔صدر پوتن کا یہ اندازہ بھی غلط ثابت ہؤا کہ بااثر یورپی ممالک روسی تیل و گیس پر انحصار کرتے ہیں ، اس لئے وہ اس کے خلاف پابندیوں کے معاملہ میں امریکہ کا مکمل ساتھ نہیں دیں گے۔ یوں نیٹو اتحاد میں ہی دراڑیں پیدا ہوں گی۔ یہ سوچتے ہوئے صدر پوتین نے یہ حساب نہیں لگایا کہ اگر جرمنی و دیگر ممالک روسی انرجی پر انحصار کرتے ہیں تو روس بھی یورپ کو تیل و گیس فروخت کرکے کثیر وسائل حاصل کرتا ہے۔ ان سے محرومی روس کی مشکلات میں یورپی ممالک کے مصائب کے مقابلے میں زیادہ اضافہ ہوگا۔ اسی طرح جنگ مخالف لابی کو بالواسطہ طور سے یوکرائن میں روسی جنگ جوئی کو تسلیم کروانے کے لئے استعمال کرنے کا قیاس کرتے ہوئے وہ یہ فراموش کربیٹھے کہ روسی آبادی میں بھی جنگ کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ خبروں کے مطابق ملک کے 45 شہروں میں جنگ مخالف مظاہرے ہورہے ہیں اور حکام نے 5200 مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔ یہ تحریک مضبوط ہوگئی تو صدر پوتن کو خارجی محاذ کے ساتھ داخلی طور سے بھی سنگین صورت حال کا سامنا ہوگا۔
دیکھا جائے تو یوکرائن کا موجودہ بحران امریکہ اور روس کی جانب سے مختلف پہلوؤں سے اندازوں کی غلطیوں کی وجہ سے پیدا ہؤا ہے۔ اندازوں کی ان غلطیوں ہی سے یوکرائن کے 44 ملین لوگ اس وقت خطرناک جنگ کا سامنا کررہے ہیں۔ اب صدر پوتن نے جوہری تیاری کا اعلان کرکے ایک نیا جؤا کھیلا ہے اور اندازے کی ایک نئی غلطی کی ہے۔ ان ہتھیاروں کے ’محدود‘ استعمال کا حکم دینے کے لئے بھی اگر اندازے کی ایسی ہی کوئی غلطی سرزد ہوئی تو اس کے دنیا کے امن و سلامتی پر تباہ کن اور دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ