تقریباً اسّی کروڑ سے زائد دیہی آبادی کے ساتھ بھارت کے دیہات روئے زمین پر مسائل سے بھرے علاقے ہیں۔ میڈیا کوریج اور سرمایہ کاری کے ضمن میں یہ دنیا کے نظرانداز ترین علاقے بھی ہیں۔ سینئر صحافی اور پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے بانی جناب پی سائی ناتھ کا کہنا ہے کہ ملکی میڈیا کے نزدیک ہندوستانیوں کی اکثریت کا کوئی وجود ہی نہیں یعنی 75فیصد ہندوستانی آبادی تو ان کے نزدیک وجود ہی نہیں رکھتی۔ دہلی کے سینٹر آف میڈیا سٹڈیز کے مطابق ، بھارت کے قومی اخبارات میں زراعت پر پانچ سالہ اوسط رپورٹنگ تمام تر خبروں کا محض 0.61فیصد ہے۔میڈیا کا بیشتر حصہ چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا ٹی وی، مشہور شخصیات ، آئی ٹی، سٹاک ایکسچینج کی صورتِ حال اور اشرافیہ اور شہری مڈل کلاس کے روزمرہ کے مسائل ہی میڈیا کے نزدیک زیادہ اہم ہیں۔کارپوریٹ میڈیا کے برعکس، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ڈیجیٹل صحافتی پلیٹ فارم نے دیہی بھارت کی خوب صورتی اور پیچیدگی ہی کو نہیں بلکہ اس کی مشکلات اور عام زندگیوں کی تکالیف ومسائل کو بھی موضوع بنایا ہے جو حکومتی پالیسیوں کے اثرات کو بیان کرتی ہیں جنہوں نے زندگیوں، روزی اور آبادیوں کو تباہ کردیا ہے۔دیہی ہندوستان میں کسانوں کی خودکشیوں، بچوں میں غذائی کی کمی، بڑھتی بے روزگاری، بڑھتی بے ضابطگی، قرض داری، اور زراعت کی مجموعی تباہی کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ زراعت اور اس سے متعلقہ سرگرمیوں کے لوگ شہروں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو کر سائیکل رکشہ ڈرائیور ، گھریلو ملازم اور دیہاڑی دار مزدور بننے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
بھارت کے ہزاروں کسانوں نے 1997ء میں خودکشیاں کیں اور بہت سے دوسرے معاشی مایوسی کا شکار ہیں یا قرضوں کے باعث زراعت چھوڑتے جا رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 2004ء سے 2011ء کے دوران بھارت میں کاشت کاروں کی تعداد 16.6کروڑ سے کم ہو کر 14.6کروڑ ہو گئی ہے۔ یعنی روزانہ 6,700کے لگ بھگ کسان کاشت کاری ترک کررہے ہیں۔ اس شرح کے حساب سے 2022ء تک کسانوں کی مجموعی تعداد 12.7 کروڑ رہ جائے گی۔کئی دہائیوں سے زراعت پر اثرانداز ہوتے اصل مسائل میں شامل ہیں، ڈی ریگولیٹ مارکیٹوں اور منافع خور کارپوریشنوں کا اثر، قرضوں میں اضافہ اور کریڈٹ کی سہولیات میں کمی، حکومت کی جانب سے کسی مدد سے دستبرداری، بڑھتی ہوئی لاگتیں اور سبسڈی شدہ سستی درآمدات جو کسانوں کی آمدنی پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ بھارت کے زراعتی بحران کی بنیادی وجہ پر پالیسی تجزیہ کار دیوندر شرما نے یوں روشنی ڈالی: ’’ بھارت زراعت کو کارپوریٹ کنٹرول میں لانے کے راستے پر گامزن ہے۔ زمین خریدنے ، پانی کے ذخائر، بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات اور غذا کی پروسیسنگ ،کے موجودہ قوانین میں ترامیم کے ساتھ حکومت معاہدے پر کاشت کاری اور منظم ریٹیل کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔یہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات کے عین مطابق ہے۔
عالمی بینک جیسے اداروں کی قرضوں کی جیوپولیٹیکل حکمت عملیوں سے لے کر زراعت پر امریکہ بھارت پیش رفت اور WTOکے قوانین سے غیرملکی کارپوریشنوں کو خوراک اور زراعت میں لانے تک، ایک مسلسل حکمت عملی جاری ہے جس سے چھوٹی کاشت کاریوں اور دیہات میں خوراک کی کاشت کا موجودہ نظام ختم ہوگا اور ایسے نظام کو راہ دے گا جو عالمی بیج، کیڑے مارادویات، فوڈ پراسیسنگ اور ریٹیل کارپوریشنوں جیساکہ وال مارٹ، مونسنٹو بائر اور کرگل کو راہ دے گا۔پی سائی ناتھ زراعتی بحران اور کارپوریٹ کاشت کاری کی طرف رحجان کو پانچ الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں۔ ’’دیہاتی علاقوں کی غارت گر کمرشلائزیشن۔‘‘ اور اس کے نتیجے کو وہ مزید پانچ الفاظ میں بیان کرتے ہیں، ’’تاریخ کی سب سے بڑی Displacement۔‘‘
زراعت کو چھوٹے کسانوں کے لیے جان بوجھ کر ناممکن بناکر (جو ملک میں خوراک کی پیداوار کی ریڑھ کی ہڈی ہیں) اصل مقصد بھارت کو بنیادی طور پر ناقص اور مجموعی طور پر استحصالی عالمی خوراک کی حکومت بنانے کی راہ ہموار کرنا ہے جو ملک کی خوراک میں خودمختاری کو برباد کردے گی اور اس کے ساتھ ہی صحت، مٹی، پانی کی سپلائی اور دیہی آبادیوں کو بھی۔دیہی ہندوستان بحران کا شکار ہے۔ اور اگر موجودہ پالیسیاں جاری رہیں تو لاکھوں لوگ شہروں کی طرف نقل مکانی کو مجبو رہو جائیں گے، لیکن ان کی مشکلات جاری رہیں گی کیوں کہ شہری مراکز ان لوگوں کو مطلوبہ روزگار فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔بے روزگاری بھارت کا بڑامسئلہ ہے، جس میں آٹومیشن کا بڑھتا عالمی رحجان اور آرٹیفشل انٹیلی جینس کے اثرات کوئی مددگار نہیں۔ کسانوں کو قرضوں سے رعایت دینے اور قیمتوں اور منافعوں کی سطح پیداوار کی لاگت سے زیادہ رکھنے کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔ اور ایسا نہیں کہ یہ اقدامات ممکن نہ ہوں۔ یہ بس ترجیحات کا معاملہ ہے۔ سب کسانوں کا مجموعی قرضہ انڈیا میں صرف پانچ بڑی کارپوریشنوں کو دئیے گئے قرضے کے برابر ہے۔وہ قرضے گئے کہاں؟ 2016ء کی Demonetisation پالیسی بینکوں اور کارپوریشنوں کو سہولت اور آسانی دینے کے لیے تھی، جس کی قیمت کسانوں اور عام طبقے نے ادا کی۔ جہاں کسان بھاری قرضوں تلے ہیں اور خودکشیاں کررہے ہیں، وہیں محض مٹھی بھر ارب پتیوں کو اس سرمائے تک رسائی ہے جس کی واپسی کے لیے ان پر کوئی دباؤ بھی نہیں۔2016ء میں وسطی بھارت میں مندسور میں کسانوں کی بغاوت ہوئی جہاں چھے کسانوں کو گولی مار کر ہلاک کردیاگیا۔یہ گویا آخری تنکا تھا۔ اس واقعے نے ثابت کیا کہ نیولبرل نظریے پر کسانوں کو قربان کیا جا رہا ہے، خوراک کو سستا رکھا جارہا ہے تاکہ شہری مڈل کلاس کی قابل ضیاع آمدنی اور ان کے خرچ کا ڈھنڈوراپیٹا جاسکے اور GDP گروتھ کا فریب دکھایا جاسکے۔
البتہ شہری اور دیہاتی ہندوستانی دونوں ہی کسانوں کے مطالبوں کو قومی سیاسی (اور میڈیا کے) ایجنڈا میں لانے میں ایک دوسرے کی مددکررہے ہیں۔ مثال کے طور پر، نیشن آف فارمرز نامی ایک رضاکار گروپ جس میں زندگی کے تمام ہی شعبوں کے لوگ شامل ہیں، پارلیمنٹ کی جانب نومبر کے آخر میں ایک آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی کے مارچ کا انتظام کررہا ہے۔یہ دوسو کسان تنظیموں کی آرگنائزیشن ہے جو دہلی میں ملک بھر کے کسانوں، کھیت مزدوروں اور دیگر مایوسی زدہ دیہاتیوں کے احتجاجی مارچ’ کسان مکتی مارچ‘‘ کا انتظام کررہی ہے۔ انہیں امید ہے کہ اس میں دس لاکھ سے زائد لوگ شامل ہوں گے۔ ایسا ہی ایک مارچ 2018ء کے شروع میں ممبئی تک ہوا تھا۔ اگرچہ اس بار وہ یہ معاملہ پارلیمنٹ تک لے جانے کے ارادے سے نکلے ہیں۔ وہ کسانوں کے قرضوں کی معافی اور کسانوں کے لیے زرعی مصنوعات پر کم سے کم امدادی قیمتوں کے نفاذ کا مطالبہ رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں قانون سازی چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں منتظمین نے انڈیا کے صدر رام ناتھ کووند کو بھی ایک خط تحریر کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ تمام ہندوستانی حکومتیں ہی دیہی علاقوں کی تباہ حالی اور کسانوں کی بدحالی دیکھتی آرہی ہیں لیکن کسی نے بھی اس سلسلے میں کمی لانے کو کچھ نہیں کیا۔ پچھلے بیس برسوں میں تین لاکھ کسان خودکشیاں کرچکے ہیں۔’’ کسان مکتی مارچ‘‘ 28سے 30نومبر کوہوگا۔ اس خط میں صدر سے بحیثیت سربراہ ریاست اس معاملے میں دخل دینے اور پارلیمنٹ کے اکیس روزہ سیشن کو اس سلسلے میں مباحثہ اور پالیسی سازی کرنے کی ہدایت کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ زرعی بحران پر ایسے کسی بھی سیشن میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر متاثرہ لوگوں کی بھی سنی جائے تاکہ وہ کاشت کاری پر تباہ کن پالیسیوں کے اثرات ، پانی کی پرائیویٹائزیشن کی ناقابل برداشت شدت، صحت وتعلیم کی سہولیات پر اپنے تاثرات دے سکیں اور ان کی روشنی میں نئی پالیسی سازی اور اقدامات کیے جاسکیں، جو ان کسانوں کی زندگیوں پر مثبت طور پر اثرانداز ہوں۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ