روہی میں کوئی راستہ بھولتا ہے تو اسے راستہ بتانے والا کوئی نہیں ہوتا، دور دور تک نہ انسان نہ آبادی اور نہ ہی پانی کا انتظام ، بھٹکنے والا مسافر پریشان ہو کر ، اپنے سر کی دستار روہی کے کسی جھاڑی نما درخت پر لٹکاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی آدمی دور سے دیکھے تو اسے پتہ چلے کہ یہاں کوئی آدمی راستہ بھٹک کر مشکل میں ہے ۔ گویا یہ خطرے کا نشان ہوتا ہے مگر یہاں کس کا گزر؟ چولستان کا مسافر جسے سرائیکی میں ’’روہی دا پاندھی‘‘ کہتے ہیں ،شدت پیاس سے جب نڈھال ہونے لگتا ہے تو کبھی ریت پر چل پڑتا ہے اور کبھی بیٹھ جاتا ہے پھر کہیں آگے جا کر اگر دوسرا کپڑا موجود نہ ہو تو بدن سے قمیض اتار کر کسی جھاڑی یا درخت پر لٹکانے کے عمل کو دہراتا ہے اور اپنے قریبی رشتے داروں اور پیاروں کو رو رو کر آواز دیتا ہے اور فریاد کرتا ہے کہ میرے پاس آؤ ، جلدی آؤ، اس کیفیت کو خواجہ فریدؒ نے بیان کیا ہے اور ’’جلدی آنے کی التجا‘‘ کیلئے خواجہ فریدؒ نے ایک لفظ ’’وہر کر‘‘ استعمال کیا ہے ۔ دھرتی کے شاعر نے اس سارے منظر کو کتنے کربناک اور حقیقی معنوں میں بیان کیا ہے ، ملاحظہ فرمائیے : روہ روہی راوے رُلدی نت قدم قدم تے بُھلدی کڈٖیں تھک بٖہندی کڈٖی جُٖلدی ہُنْ سانول یار وہر کر خواجہ فریدؒ کازمانہ تو سو سال پہلے کا زمانہ ہے ۔ روہی میں آج بھی لوگ پیاس سے مر رہے ہیں ، روہی میں آج بھی کربل بپا ہے ۔ روہی کی آباداور قابل کاشت زمینوں پر قبضہ گیری کا عمل جاری ہے ۔ روہی کے اصل وارث جو ہزار ہا سالوں سے نسل در نسل پیاسے صحرا سے جنم جنم کا ساتھ نبھا رہے ہیں اُنہیں پیچھے دھکیلا جا رہا ہے اور جونہی کوئی زمین کاشت کے قابل ہوتی ہے ۔ وہاں سن آف سائل کی ’’جھوک‘‘ اور تڑ تاڈٖے‘‘ بلڈوز کرکے وہاں’’چک‘‘ کا بورڈ لگا دیا جاتا ہے ۔ یہ سب کیا ہے؟ میرے خیال میں یہ ظلم ہے زیادتی ہے اور ’’وانجھ‘‘ ہے ۔ اسے ختم ہونا چاہیے۔ خواجہ فریدؒ نے اس طرح کے عمل کی مذمت اس طرح کی ہے: غم درد الم بد نیتے پئے ساڑن سوز پلیتے تھئے میں مٹھڑی دے کیتے سب رانی خان دے سالے خواجہ فریدؒ پیامی شاعر ہے اس نے ’’روہی واس‘‘ کو ہر حال میں روہی پہنچنے کی تلقین کی ہے ’’ایں راہ ڈٖو آویں نہ ہا ، جے آئیں قدم ڈٖینہو ڈٖینہ ودھا ‘‘ جیسے پیغام کی ہمہ گیری اور وسعت اپنی جگہ مگر ایک اور جگہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ روہی کا سفر کریں گے روہی میں موت آ جائے تو ’’پرِیں‘‘ یعنی وہ پیارے جو گزر گئے ، کی روحوں کیساتھ روہی کا جشن منائیں گے۔ تھی راہی برڈو جُٖلساں وَل راہوں مول نہ ولساں ونجٖ ساتھ ’’پرِیں‘‘ دے رلساں ونجٖ کرسوں روہی ’’بٖوہی‘‘ روہی محض ایک صحرا نہیں بلکہ ایک تہذیب اور ایک تمدن کا نام ہے اس تمدن کے نباتات پر غور کریں تو وہ رشک شمشاد صنوبر ہیں ۔ اس کے ڈاہروں کوخواجہ فریدؒ نے کوہ طور قرار دیا ہے ۔ روہی کی ریت کے ذروں کی چمک ماہِ تاباں ہے۔ روہی تڑ ، تاڈٖے ، جھوک اور عارضی ٹھکانوں میں جائیں تو وہ انسانوں کیلئے دارالامن ہیں ۔ غرض آپ روہی کی ایک ایک چیز پر غور کریں تو آپ کو ہر ایک میں تنوع ، بانکپن اور خوبصورتی نظر آئے گی ، روہی میں جہاں اور بہت سی رنگینیاں اور خوبصورتیاں ہیں وہاں ایک ٹوبھہ بھی ہے ۔ ٹوبھہ کیا ہے؟ سب سے پہلے اس بارے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعد میں دیکھیں گے کہ ٹوبھے بارے خواجہ فریدؒ نے کیا فرمایا ہے۔ چولستان کی اہم ضرورت اور سب سے قیمتی چیز پانی ، روہی میں پانی کا نام زندگی اور زندگی کا نام پانی ہے ۔ ہاکڑہ خشک ہو جانے کی وجہ سے چولستان میں زیر زمین پانی کی سطح نہ صرف خوفناک حد تک نیچے چلی گئی بلکہ زیر زمین پانی کو میٹھا رکھنے والے ’’زیر زمین قدرتی ٹوبھے‘‘ سوکھ گئے جس کے باعث زیر زمین پانی کڑوا بھی ہو گیا ۔ اب روہی کا واحد ذریعہ بارشیں ہیں مگر روہی میں بارشوں کی شرح بہت کم ہے لیکن جب بھی بارش ہوتی ہے سب سے پہلے روہیلے اس پانی کو سٹور کرنے کا انتظام کرتے ہیں ۔ جہاں زمین پختہ اور زیر زمین مٹی ریتلی نہیں بلکہ چکنی ہو ۔ ٹوبھہ اور کنڈکھود کر بنائے جاتے ہیں۔ اکثر ایسے حادثے بھی ہوئے کہ کھدائی کے دوران زمین کے دونوں کنارے مل گئے اور زندگی کیلئے ٹوبھہ بنانے والے موت کی آغوش میں چلے گئے ۔ ٹوبھہ کو چولستانی سیمنٹ سے پلستر کیا جاتا ہے اور ٹوبھے کے کناروں کو خوب پختہ کیا جاتا ہے تاکہ کناروں پر بیٹھ کر پانی بھرنے والی دوشیزاؤں کو ٹوبھہ کھینچ نہ لے ۔ ٹوبھے کے پانی کو صاف اور فلٹر کرنے کیلئے روہی کے نباتاتی نسخے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اسی طرح پانی کو میٹھا کرنے کیلئے بھی نوشادر اور روہی کی جڑی بوٹیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ روہی کا سیمنٹ کیا ہے؟ روہی کے نباتات اور ان کے خواص کیا ہیں؟ یہ بہت طویل اور دلچسپ موضوعات ہیں۔ اس وقت ہم بات کریں گے کہ خواجہ فرید سئیں نے روہی کے ٹوبھے بارے کیا کہا ہے۔ البتہ اپنے قارئین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ روہی میں ٹوبھے کے علاوہ ایک کنڈبھی ہوتا ہے ۔ یہ بھی پانی کا صحرائی ذخیرہ ہے مگر یہ عام نہیں بلکہ خاص ہوتا ہے ۔ ٹوبھے کو انسان ، جانور سب استعمال کرتے ہیں اوراس کا منہ کھلا ہونے کی وجہ سے اس کا 50فیصد پانی دھوپ کی حرارت چاٹ لیتی ہے۔ ٹوبھے کے مقابلے میں ’’کنڈ‘‘ ایک طرح کا بند کنواں ہوتا ہے یہ بیس سے تیس ہاتھ گہرا اور دس بارہ ہاتھ کشادہ ہوتا ہے ۔ اسے بھی خاص ترکیب سے بنایا جاتا ہے اور اس کی تیاری میں ٹوبھے کے مقابلے میں حادثات کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اسے بھی صحرائی سیمنٹ سے پلستر کیا جاتا ہے ۔ یہ کنڈ ذاتی ملکیت شمار ہوتا ہے اور عموماً گھروں میں بنایا جاتا ہے۔ اس کا پانی مشکل اور ہنگامی حالت میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ روہی میں پانی کا نام زندگی اور زندگی کا نام پانی ہے ۔اسی روہی کا نام ٹوبھہ اور ٹوبھے کا نام روہی ہے ۔ چولستانیوں کی طرح خواجہ فرید کو بھی ٹوبھے سے بے پناہ محبت ہے ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ٹوبھے کا ذکر نہایت محبت اور وارفتگی سے کیا ہے: اپنْے دیس ونجٖاں ، دل کو تانگھ تھئی ڈٖیکھاں تاڈٖے، ٹوبھے ، لانْے کھار بٖوئی (ختم شد)
(بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز)
فیس بک کمینٹ