اسلام آباد : حکومتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ انھیں فل کورٹ چاہیے، تین یا پانچ ججز کا پینل اب انصاف کے حوالے سے قابل قبول نہيں ہوسکے گا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین کے خط پر مونس الٰہی نے خود اعلان کیا کہ وہ ہار چکے ہیں ، مونس الٰہی تو فوری طورپر خط کے معنی سمجھ گئے، لیکن حیرت کے عدالت عظمٰی کہتی ہے کہ معاملہ سمجھ نہیں آرہا، مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ کیس فل کورٹ میں سناجائے، یہ کیس فی الحال تین رکنی بینچ سن رہا ہے، ہمیں 3 یا 5 ججوں کے پینل کا فیصلہ شاید انصاف کے حوالے سے قابل قبول نہیں ہوگا۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب اہمیت کا حامل ہے، معاملہ فوری عدالت لےجانا باعث تشویش ہے، اتحادی جماعتوں نےآئینی و قانونی ماہرین کو ہدایات جاری کی ہیں، عدالت جو کچھ کر رہی ہے یا دباؤ کےتحت کر رہی ہے یا پھر ان کی کوئی دلچسپی ہے، اپنے آئینی و قانونی ماہرین کو درخواست دینے کے لیے ہدایات دے دی ہیں۔
سربراہ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ ماضی میں جو فیصلے لیےگئےکہیں بھی سوال نہیں اٹھایا گیا، پارٹی لیڈر ہی آخری و فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے، آج نئی بحث چھیڑدی گئی کہ پارٹی کا فیصلہ یا پارلیمانی پارٹی لیڈر کا فیصلہ؟ یہ بھی ہوتا ہےکہ پارٹی سربراہ باہر ہوتا ہے پارلیمانی لیڈرپارلیمنٹ میں ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اداروں میں ایسے لوگ ہیں جو کسی ایک پارٹی سے منسلک ہیں، ان معاملات میں اداروں کو مت گھسیٹا جائے، عمران خان کی پوری سیاسی زندگی ایک جھوٹے بیانیے پرکھڑی ہے، عمران خان کا کوئی مستقل بیانیہ ہے نہ نظریہ، اس کی ڈفلی پر کچھ نوجوان لڑکے لڑکیاں ناچتے ہیں، اس محاذ پر پوری ایک جنگ لڑنےکے لیے تیار ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ریاست کمزور ہورہی ہے، کسی بیرونی دشمن کے ہاتھ نہیں بلکہ ہمارے اپنے اداروں کی مداخلت اور سیاست کی وجہ سے ہو رہی ہے، حکومت کو حکومت کرنے دیں، حکومت نے چیلنج کے طور پر اس نظام کو قبول کیا ہوا ہے۔
نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل کا کہنا تھا کہ آئینی اور قانونی ماہرین کو ہدایات جاری کر دی ہیں تاکہ وہ اس حوالے سے عدالت کو درخواست دے سکیں، پاکستان کی دستور سازی سے لے کر دستور کی بقا کے لیے اپنے اکابر سے ورثے میں ملی ہے، آج بھی اس نازک موقع پر اپنے فرض کی تکمیل کے لیے فرنٹ لائن پر اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عجیب عجیب نئی نئی باتیں، عدالتی ماحول اور ان فضاؤں سے اٹھتی ہیں، عام آدمی کے کانوں میں پڑتی ہیں، انہیں اس پر تعجب ہو رہا ہے، ماضی میں جو فیصلے کیے گئے، وہاں کہیں بھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیا، پارٹی لیڈر ہی پارٹی کے فیصلوں کا آخری اختیار رکھتا ہے، پوری دنیا کا نظام یہی ہے کہ کسی بھی ادارے یا پارٹی کا سربراہ، حکومت کا سربراہ ہی آخری اور فیصلہ کن قوت ہوتی ہے، باقی اس کے ماتحت ہوتے ہیں، تجویز دے سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج یہ نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ یا پارٹی کے سربراہ کا فیصلہ، پارلیمان کے اندر بعض اوقات پارٹی کا سربراہ پارلیمنٹ کا بھی ممبر ہوتا ہے اور پارلیمانی سربراہ بھی ہوا کرتا ہے، یہ بھی ہوتا ہے کہ پارٹی کا سربراہ پارلیمان سےباہر ہے، پارلیمانی پارٹی پارلیمان کے اندر ہوتی ہے لیکن وہ پارٹی کے نظم کے ماتحت کہلاتی ہے۔
فیس بک کمینٹ