معلوم نہیں Survival of the Fittesetکوئی مقولہ ہے، ضرب المثل ہے یا پھر کہاوت، یہ جو کچھ بھی ہے، کرونا کے خوف میں افسردہ سے ماحول نے اسے سچ ثابت کردیا ہے۔صرف وہی بچے گا جو جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط و توانا ہے۔یہ وہی مضبوطی اور توانائی ہے جسے طب کی دنیا میں Immunityکہا جاتا ہے۔ہمیشہ سے ایک بات سنتے چلے آرہے ہیں کہ صاحبان اقتدار، سرمایہ دار اور باوسیلہ لوگوں کی زندگی عام لوگوں سے بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ بے پناہ وسائل کی موجودگی ان کی ہر خواہش کو پل بھر میں حقیقت بنا دیتی ہے۔ لباس، خوراک، علاج اور سفر، کچھ بھی ان کی رسائی سے باہر نہیں ہوتا۔مجھے اپنا وہ بوڑھا ملازم یاد ہے جس کی بیٹی سکھر سے شاید تیس چالیس میل دور مین لائین سے ہٹ کر کسی گاؤں میں بیاہی ہوئی تھی۔ جون جولائی میں تب بھی سکولوں میں چھٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ وہ بے چارا ان دنوں میں ہفتے دس دن کو نواسی نواسوں سے ملنے جانے کے لیے سال بھر پیسے جوڑتا۔کچھ تھوڑی بہت مدد میں بھی کرتا، تب کہیں جاکر اس کے لیے سال میں ایک بار، ملتان سے سکھر کا یہ فاصلہ طے کرنا ممکن ہوتا۔مگر اسی دوران بہت سے صاحبان ثروت محض تفریحاًپاکستان سے لندن، دوبئی اور مکے مدینے کا سفر یوں کرتے رہتے جیسے عام آدمی گلی کے میڈیکل سٹور تک آنا جانا کرتا ہے۔بے شک دنیاوی وسائل معاملات زندگی میں بہت سی آسانیوں کا سبب بنتے ہیں لیکن اگر بات قدرتی آفات کی ہو تو دنیاوی وسائل بھی کچھ نہیں کرسکتے۔زلزلہ، طوفان، سیلاب اور وبائی امراض، نہ امیر کی امارت سے متاثر ہوتے ہیں نہ غریب کی بے بسی سے۔یہ آفتیں سب کو ایک آنکھ سے دیکھتی ہیں۔امیر ہو یا غریب، جو جسمانی اور اس کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر مضبوط ہوگا، اس کے بچ جانے کے امکانات بہت قوی ہوتے ہیں۔خوف ایک ایساعنصر ہے جو طاقت ور سے طاقت ور انسان کو بھی گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔کرونا کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا ایک خطرناک وائرس ضرور ہے لیکن ایسا خطرناک بھی نہیں کہ ہر شخص کے لیے جان لیوا ہو۔ دنیا بھر میں کرونا وائیرس سے جو ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ان میں ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہے جنہیں کرونا کا خوف موت کی وادی میں گھسیٹ کر لے گیا۔
کچھ عاقبت نا اندیشوں کے لیے خوف پھیلانا بھی ایک مشغلہ ہوتاہے۔بے بنیاد خبریں، بے سرو پا افواہیں اور سنی سنائی غیر مصدقہ معلومات عموماً عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کا سبب بنتی ہیں۔سہمے ہوئے لوگوں کی نہ صرف استعداد کار کم ہوجا تی ہے بلکہ ان کا نظام مدافعت بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ خوف کی حالت میں انسانی جسم میں بہت سے ایسے کیمیکلز خود کار نظام کے تحت پیدا ہونے لگتے ہیں جو اعصاب کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔پھانسی لٹکائے جانے والے بہت سے مجرمان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ کئی منٹ لٹکنے کے باوجود ان کے جسم اور روح کا رشتہ ٹوٹ نہیں پاتا۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو موت کو ایک حقیقت سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں، موت کا خوف خود پر طاری نہیں کرتے۔دوسری طرف سزائے موت کے ایسے قیدی بھی ہوتے ہیں جو ڈیتھ وارنٹ جاری ہونے سے پہلے ہی کال کوٹھری میں مر جاتے ہیں۔خوف کی بھی بے شمار قسمیں ہوتی ہیں، موت کا خوف، ناکامی کا خوف، بدنامی کا خوف، دوسروں کی کامیابی کا خوف، بھوک اور غربت کا خوف اور سب سے بڑھ کر ان دیکھے ان جانے کا خوف۔خوفزدہ کرنا بھی ایک مہارت بلکہ ہنر کا نام ہے۔ اس مہارت اور ہنر کو زمانہ جدید کی ففتھ جنریشن وار کا اصل اور سب سے خطرناک ہتھیار قرار دیا جاتا ہے۔یقین کیجیے کہ پاکستان میں کرونا کے نقصانات کی وہ شرح بالکل بھی نہیں جو امریکا، برطانیہ، اٹلی اور سپین یا پھر ایران میں دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن پھر بھی ہمارے کچھ خیر خواہ قوم کو دن رات صرف سہمانے اور ڈرانے میں لگے ہوئے ہیں۔
سر دست پاکستان میں کرونا کی تباہ کاریوں کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ ان لوگوں کا ہے جنہیں عرف عام میں دہاڑی دار مزدور کہا جاتا ہے۔ ان مزدوروں میں رکشے والے، چنگ چی لوڈرز، خوانچہ فروش، رنگ ساز، ورکشاپس میں کام کرنے والے اور تعمیراتی کاموں سے منسلک مزدور شامل ہیں۔یہ لوگ روزانہ کی بنیادوں پر اپنا نظام زندگی چلاتے ہیں۔ پانچ سو روپے کا اضافی خرچہ بھی انہیں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور کردیتا ہے۔بظاہر یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ کرونا کا واحد علاج لاک ڈاؤن ہے لیکن جیسا کہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان اپنے ہر خطاب میں یہ بات دہراتے ہیں کہ 22کروڑ انسانوں کو گھروں میں بند کردینا اس لیے ممکن نہیں کہ ایسی صورت حال میں کرونا سے تو شاید لوگ بچ جائیں مگر بھوک سے ضرور مر جائیں گے۔ پاکستان چیریٹی یعنی خیرات زکوٰۃ کے ذریعے انسانوں کی مدد کے حوالے سے بہت ہی مضبوط معاشرہ ہے۔ امداد کرنے والے بہت ہیں لیکن ابھی تک امداد پہنچانے کے لیے جو بھی میکینزم اپنانے کی کوشش کی گئی ہے بہت سے اعتراضات کا شکار ہوئی ہے۔ ضرورت مندوں کو بروقت اور درست انداز میں امداد پہنچانے کے لیے اگر پولیو ورکرز کا تعاون لیا جائے تو یہ کام نہایت احسن طریقے پر کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں پولیو ورکرز نہ پہنچتے ہوں اور شاید ہی کوئی گھر ہو جس پر پولیو ٹیموں کے لگائے ہوئے نشانات موجود نہ ہوں۔ اگر پولیو ورکرز پر مشتمل ایسی ٹیمیں تشکیل دے دی جائیں جن میں علاقے کی یونین کونسل کا ایک نمائیندہ بھی شامل ہو اور فوج کے دو سپاہی ہمراہ ہوں اور امدادی سامان کے پیکج کے ہمراہ یہ ٹیمیں ہر علاقے میں جاکر گھر گھر یہ امدادی سامان تقسیم کردیں تو کام بہت آسان ہوسکتا ہے۔اس ساری کاروائی کے دوران جس علاقے میں تقسیم کا کام کیا جارہا ہو وہاں عارضی کرفیو بھی لگایا جاسکتا ہے تاکہ لوگوں کا رش نہ لگے۔
مصیبتوں، آفتوں اور آزمائیشوں کا مقابلہ کبھی بھی بے ہمتی سے کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے ٹی وی اینکرز کو بھی چاہیے کہ اپنی روزی حلال کرنے کے لیے سارا دن ٹی وی سکرینوں پر خوف اور دہشت پھیلانے اور حکومتی کارکردگی کا تماشہ بنانے کے لیے مختلف الخیال لوگوں کو بندروں کی طرح نچانے کی روش پر بھی تھوڑا سا غور کر لیں۔ہر معاملہ سیاسی نہیں ہوتا۔ کوئی بھی حکمران اپنی قوم کا بدخواہ نہیں ہوتا، حکمت عملی اصلاح طلب ضرور ہوسکتی ہے لیکن اصلاح اور تمسخر اڑانے میں بہر حال ایک فرق ضرور ہوتا ہے۔میں ابھی کچھ دیر پہلے ایک چینل پر دو اینکرز کے درمیان پھنسے ہوئے کراچی کے ایک ڈاکٹر صاحب کو دیکھ رہا تھا۔ دونوں اینکرز کی کوشش تھی کہ ڈاکٹر صاحب کسی طرح اپنے منہ سے یہ بات کہہ دیں کہ کرونا پاکستان کو خدانخواستہ امریکا، برطانیہ، سپین، ایران اور اٹلی سے کہیں زیادہ بھیانک نقصان پہنچائے گا۔ڈاکٹر صاحب بھی کوئی شیر کے بچے تھے، اینکرز کی ہزار کوشش کے باوجود وہ یہی کہتے رہے کہ پاکستان انشااللہ بہت محفوظ رہے گا۔یاد رکھیے، مصیبت کی اس گھڑی میں ہمارا ان بد بختوں سے بڑا اور دشمن کوئی بھی نہیں جو ہماری قوم کو سہمانے اور ڈرانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے بدنصیبوں کے ساتھ ہمیں وہی سلوک کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے ہمسایہ ملک میں اچھوتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی وسیع تر قومی مفاد میں بہت سے ایسے قدم بھی اٹھانا پڑ جاتے ہیں جنہیں عام زبان میں غیر اخلاقی اور غیر مہذب اقدامات کہا جاتا ہے۔یقین رکھیے، سختی کے یہ زمانے عارضی ہیں۔ بہت جلد ایک ہری بھری،لہلہاتی، گیت گاتی زندگی ایک بار پھر ہمارے ساتھ ہوگی۔ انتظار کیجیے،زندگی پھر سے مسکرائے گی۔
فیس بک کمینٹ