ایک نیوز چینل پرانٹرویو میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ مسلح تنظیمیں حکومتی اداروں کے پروں کے نیچے پل رہی ہیں اورحکومتی اداروں کا مؤقف ہے کہ یہ تنظیمیں کشمیر اور افغانستان کے لیے پروان چڑھائی جا رہی ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن کا یہ مؤقف ناقابلِ فہم ہے۔ اگر مولانا کا مؤقف درست مان لیا جائے تو ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کی بات بے معنی ہو جاتی ہے۔ ان کے اس انٹرویو کے بعد قوم یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوگی کہ مدرسوں اورحکومتی اداروں کے کاموں کی نوعیت آخر ایک جیسی کیوں ہے؟۔مولانا صاحب نے اپنے انٹرویو میں ایک اوربات بھی کہی ہے کہ حکومتی اداروں نے ہی مدرسوں کے بچوں کے گلے میں کلاشنکوف ڈالی اور انہیں بندوق اٹھانے کی ترغیب دی۔مولانا فضل الرحمٰن کے انٹرویو سے تو یہ تاثر ابھرتا ہے کہ حکومتی اداروں اور مدرسوں میں بہت گٹھ جوڑ رہا ہے۔مولانا کی ان باتوں کو اگر درست مان لیا جائے تو پھر ایسی قوت کا پتہ چلانا بھی ضروری ہو گا جس نے مدرسوں اور حکومتی اداروں کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا اور پھر اسی کے نتیجے میں عوام کا خونِ ناحق بہہ رہا ہے۔ ایک صحافی کی حیثیت سے میں بھی ان تمام معاملات کو کئی عشروں سے دیکھ رہا ہوں اور بہت سے واقعات کا عینی شاہد بھی ہوں۔ مجھے یاد ہے جب مدرسوں کے طلبہ کو سرحدوں اور ٹریننگ کیمپوں میں لے جا کر اُن کے گلے سے بستہ اتار کر ان کے ہاتھ میں قلم کی بجائے کلاشنکوف تھمائی جا رہی تھی تو مدرسہ مالکان کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ اس لیے خوش تھے کہ انہیں فی طالب علم (یا فی شہید) کثیر رقم بھی فراہم کی جارہی تھی ۔ اور اسی رقم کے لالچ میں مدرسہ مالکان نے اپنے طلبہ کو علم دینے کی بجائے خون کی ہولی کھیلنے کے لئے خوشی خوشی روانہ کر دیا ۔کسی بھی مدرسہ مالک نے اپنے طالب علموں کو دین کی تعلیم سے ہٹا کر قتل وغارت کے محاذ پر بھیجنے کے خلاف احتجاج نہیں کیا تھا، بلکہ انہی دنوں مدرسہ مالکان کے پاس نئی نئی، بڑی بڑی گاڑیاں آئیں۔ ان کے مدرسوں کو وافر فنڈز فراہم کئے گئے اور ان کے حجرے محلات میں تبدیل ہو گئے ۔ 1999ء میں رحیم یارخان کی ایک تحصیل میں ہونے والے مذہبی اور اسلام پسند سیاسی جماعتوں کے اجلاس کے بارے میں بھلا آپ کا کیا خیال ہے جس میں باقاعدہ مذہبی جماعتوں نے متحد ہو کر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور اسی اجلاس کے دوران خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے اور اس کے بعد دوسرے مرحلے میں مسلح جدوجہد کے ذریعے ملک میں اسلام نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اب اسی اجلاس کے فیصلے کے تحت ملک میں نفاذ اسلام کا دوسرا مرحلہ جاری تھا۔ ملک کی سیاسی قوتیں اور مذہبی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ پر ہی سارا الزام دھرتی ہیں۔ باشعور طبقہ بھی اسٹیبلشمنٹ کو ہی ذمہ دار قرار دیتا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ تو اب اپنے کئے کی تلافی کر رہی ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ تلافی کی ذمہ داری ان پر بھی تو عائد ہوتی ہے جو مالی مفاد کے لئے قتل و غارت کے اس کھیل میں برابر کے حصہ دار رہے ۔ کیا خیال ہے آپ کا ؟
فیس بک کمینٹ