گزشتہ جمعرات کو نام نہاد "اسلامی ریاست” داعش کے خود کش بمبار نے سیہون شریف پر حملہ کیا. پاکستان کے جنوبی سندھ صوبہ میں واقع یہ مزار مقدس ترین مزارات میں شمار ہوتا ہے.اس اندوہناک واقعہ میں 24 بچوں سمیت 80 سے زیاده افراد شہید اور 250 زخمی ہوئے۔ دہشت گرد قلندر سے نفرت اسی لئے کرتے ہیں کیونکہ ہم سب ان سے محبت کرتے ہیں. سیہون میں قلندر اور ان کا مزار سنی، شیعہ، ہندو، مسلم، موحد و ملحد سب کی محبت و عقیدت کا مرکز و محور ہے۔ نام نہاد اسلامی ریاست کے دہشت گرد اور وہابی تشدد پسند جو اسلام کی انتہا پسندانہ تشریح کرتے ہیں ان کے نزدیک مزار پر رائج رسومات، موسیقی، دھمال وه بنیادیں ہیں جن کی وجہ سے یہ سیہون شریف جیسی درگاہوں کو نشانه بناتے ہیں
1980 اور 90 کی دہائی میں اپنے بچپن میں اپنے خاندان کے ساتھ کراچی سے اپنے آبائی شہر لاڑکانہ جاتے ہوئے سیہون شریف میں حاضری دیا کرتی تھی. ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفر کرتے جن پر پام کے درخت اور اکا دکا لوگ ہی نظر آتے ، ہم دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر رک جاتے تاکہ سیہون میں محو خواب لعل شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دیں. شہباز قلندر تیرہویں صدی عیسوی کے صوفی شاعر مولانا روم کے ہم عصر تھے۔ قلندر جن کا پورا نام سید محمد عثمان مروندی
ہے، انہیں موسیقی و صوفیانہ شاعری کی وجہ سے لعل شہباز قلندر کے نام سے محترم و مکرم جانا جاتا ہے. جیسے جیسے ہم سیہون کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہیں فضا پھولوں اور ہاروں کی خوشبو سے معطر ہوتی چلی جاتی ہے، جو زائرین مزار پر چڑہانے کے لئے خریدتے ہیں۔
سات سال کی عمر میں عاشوره کے دوران سیہون شریف گئی اس موقعہ پر وہاں نواسهء رسول صلی الله علیه وآله وسلم حضرت امام حسین کی عزاداری و ماتم داری ہورہی تھی جنہیں 680 عیسوی میں ایک ظالم حکمران نے کربلا، جسے اب عراق کہتے ہیں، کے مقام پر شہید کردیا تھا. مجھے لعل شہباز قلندر کے مزار کے احاطہ میں ہزاروں عزادروں کا ماتم اب بھی یاد ہے جو پسینے سے شرابور کالی شلوار قمیض پہنے گھاس اور ان بجھے سگریٹوں پر سینہ کوبی کرتے ہوئے چل رہے تھے. سات سال کی عمر میں مجھے یہ سب کچھ انتہائی ارتعاش انگیز، حیران کن اور قلندر کی پاکیزگی کا مظہر لگا
میں برسوں سے وہاں جا کر سرخ و سبز روشنیوں، سنہری گنبد اور فلک بوس میناروں سے مزین احاطہ مزار میں بیٹھتی ہوں. مزار کا فرش اکثر زائرین سے کھچا کھچ بھرا رہتا ہے. کچھ لوگ اپنے بچوں کی خوراک کے ٹفن لئے نظر آتے ہیں…..وہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس مصروف دعا و مناجات ہوتے ہیں ۔ امراء و رؤسا بھی اپنی اپنی پریشانیاں قلندر پاک کی چوکھٹ پر رکھنے کے لئے مجمع کو چیرتے چلے آتے ہیں. ایسا ملک جو لسانی، علاقائی، جنسی اور طبقاتی تقسیم پر قائم ہے وہاں قلندر کی بارگاه انسانی برادری کی یک جہتی اور محبت کا مینار نور ہے… یه ایک ایسا انبساط افزا جزیره ہے جہاں آکر ہندو، بدھ ، مسلمان سب ایک ہو جاتے ہیں ۔ جمعرات کی شام کو لوگ قوالی سننے اور مستانه وار رقص/ دھمال کے لئے مزار پر اکٹھے ہوتے ہیں. وه گلابوں کی پتیاں، مکھانے اور پس انداز کی ہوئی رقم لے کر آتے ہیں. وه شدت آلام سے آرام اور اس ظالم دنیا میں کرب و اذیت سے نجات کے لئے دعا کرتے ہیں اور اپنی بھولی بسری دعاؤں کے جواب کی استدعا کرتے ہیں. جو لوگ کچھ بھی لانے کے قابل نہیں وه خالی ہاتھ ہی آ جاتے ہیں. سیہون کی بارگاه کمزور، پریشان اور مفلوک الحال انسانوں کو امن اور تحفظ کی یقین دہانی کراتی ہے
جب بھی ھم سیہون جاتے ایک گونگا بہره شخص جسے گونگا کے نام سے ہی پکارا جاتا تھا میرا اور میرے بھائی زلفی کا استقبال کرتا
یه مزار کا خادم اور محافظ تھا. بعض اوقات اس کی قمیض کی جیب پر امام حسین علیه السلام کی تصویر چسپاں ہوتی تھی، گونگا ہمیں مزار میں لے جاتا جو اس کاگھر تھا، پناه گاه تھی. مزار پر درج ذیل نغمات سننے کو ملتے ہیں
شہباز قلندر… قوالی
سیہون کا سفر فنا فی الله
طاہر فریدی قوال کی وڈیو
او لال میری پت رکھیو بلا جھولے لالن
سندھڑی دا سیہون دا سخی شہباز قلندر
دما دم مست قلندر
میں سیہون سے دور بہت دور ہوں، ان ملکوں میں ہوں جو اردو بولنے والوں کے دیس سے کتنے ہی دور ہوں……..”دمادم مست قلندر” سننے کی خاطر مادر وطن میں واپس جانا ہی ہوتا ہے
۔ مزار پر افسوس ناک حمله کے بعد میرے بھائی نے مجھے فون کر کے دریافت کیا کہ "گونگا زنده ہے؟” لیکن جب سے دھماکه ہوا ہے کسی نے گونگا کو نہیں دیکھا. ہم پاکستانیوں کا ایمان ہے اولیاء ہماری حفاظت کرتے ہیں.. کراچی جہاں ہم سمندر کے کنارے رہتے ہیں… ہمارا ماننا ہے که عبدالله شاه غازی کا مزار شہر کو سمندری طوفانوں سے بچائے رکھتا ہے.
قلندر کے یہاں آنے سے پہلے سیہون کا نام شیوستان تھا یعنی ہندو دیوتا شیوا جی کے نام پر. وقت کے ساتھ نام سیہون میں تبدیل ہو گیا.. مگر سندھ صدیوں سے تمام مذاہب کا گھر رہا ہے. قلندر کے عرس پر مزار پر چادریں چڑھانے والوں میں ہندو مسلمان سب شامل ہوتے ہیں.
(مطبوعہ:نیو یارک ٹائمز)