ایک تھا محکمہ تعلیم کا چاچا فیض جس نے 70 کی دہائی اور پھر 90 کی دہائی میں محکمہ تعلیم سکولز(ایلیمنٹری) پر راج کیا لیکن محکمہ تعلیم کی خاتون ملازمین اور درجہ چہارم کے مرد ملازمین کی با معاوضہ خدمت 2010 تک جاری رکھی وہ محکمہ تعلیم میں نائب قاصد (چپڑاسی) تھا لیکن اپنے قصبہ محمود کوٹ ضلع مظفر گڑھ میں محکمہ تعلیم کا اعلیٰ آفیسر مشہور تھا اور کیوں نہ ہوتا جب سینکڑوں معلمات اور درجہ چہارم کے ملازمین کی تقرری اور تبادلےکے احکامات چاچا فیض کے دستخطوں سے جاری ہوئے ہوں افسران سمیت سینکڑوں ملازمین کے اے سی آر اس نے لکھی ہوں۔چاچا فیض میں خوبی یہ تھی کہ وہ ہر ایک کے دستخط کرنے کا ماہر تھااور اس ہیرے کو جس جوہری نے تلاش کیاوہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ایلیمنٹری (زنانہ) اے اے بخاری (مرحومہ) تھیں جس نے چاچا فیض کو اپنے دستخطوں کا ماہر بنا دیا اور پھر کبھی بھی سرکاری کاغذات پر د ستخط کرنے کی تکلیف گوارا نہ کی۔وہ جعلی تقرریوں کی ملکہ تھیں۔
مرحومہ نے سینکڑوں جعلی تقرریاں کیں لیکن کسی سے ایک روپیہ بھی رشوت نہیں لی جس کے باعث سینکڑوں خاندان مرحومہ کے لیٔے دعا گو ہیں بلکہ اب تو ان میں سے اکثریت تو ریٹائر ہو کر پنشن کی مد میں قومی خزانہ پر مستقل بوجھ ہے۔قارئین حیران ہوں گے کہ کیا مرحومہ صرف لوگوں کی دعائیں لینے کیلئے جعلی اور ناجائز تقرریاں کرتی تھیں۔نہیں ایسی بات بھی نہیں ۔وہ جعلسازی سے جعلی تقرریاں کرنے کے ایک نئے طریقہ کار کی پنجاب میں موجد اور بانی تھیں۔کرپشن کی ملکہ نے عوام کی دعائیں لیں اور قومی خزانہ لوٹا۔اس طریقہ واردات کا تذکرہ آئندہ کروں گا۔
چاچا فیض انتہائی سادہ، بااخلاق اور ملنسار انسان تھا۔ ملازمین ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر زنانہ سے ہر کام کیلئے چاچا فیض سے رابطہ کرتے وہ بااختیار ہونے کے باوجود ہر معاملے پر یہی کہتا کہ میڈم سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ دو کمروں پر مشتمل اس کے گھر کا ایک کمرہ اس کا دفتر تھاجس میں میز کرسی کی بجائے چٹائٔیاں بچھی ہوتیں اور چٹائٔیوں پر فائٔلوں کے انبار۔ ڈی ای او عزیز الطاف بخاری کے دور میں معلمات کی تمام اے سی آرز اور سروس بکس پر اے اے بخاری اور اسسٹنٹ ایجوکیشن افسران زنانہ کے دستخط چاچا فیض ہی کرتا تھا۔وہ گزشتہ سالوں کی اے سی آرز لکھنے بلکہ فوت ہوچکے افسران کے دستخط کرنے میں بھی لالچ کامظاہرہ نہیں کرتا تھا اور نہ ہی ضد ۔جس نے جو دے دیا شکریہ ادا کرکے قبول کرلیتا۔سادگی اتنی کہ کار بھی افورڈ کرسکتا تھا لیکن سمیجہ آباد سے چونگی نمبر 6 گلگشت تک دفتر سائیکل پر ہی آتا جاتا رہا۔اے اے بخاری اس پر اندھا اعتماد کرتیں اور اپنے چناؤ پر فخر کرتیں کہ انہوں نے ایسا ہیرا چنا ہے جس ن اس کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائیٔ۔ایجوکیشن آفیسر کا دفتر بند ہونے کے بعد چاچا فیض کا دفتر شروع ہوتا جو رات گئے تک جاری رہتا۔پانچ وقت کا نمازی چاچا خواتین کا بہت احترام کرتا لیکن قناعت پسند رشوت خور تھا۔ جو مل گیا وہ لے لیا مگر فری کام کرنے کو گناہ سمجھتا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کئی سال تک ملازمین کی بامعاوضہ خدمت جاری رکھی۔اے اے بخاری کی ریٹائرمنٹ کے بعد آنے والی افسران بھی چاچا فیض سے فیض یاب ہوتی رہیں کیونکہ بعد میں آنے والی بھی اے اے بخاری کی شاگرد اور’’متاثرین‘‘ میں سے تھیں۔
( بشکریہ ۔۔ روزنامہ بدلتا زمانہ )
فیس بک کمینٹ