کسی بھی ملک کی ترقی اور وہاں کے باشندوں کے بنیادی حقوق کی رکھوالی کے لئے قانون کی عملداری ضروری ہے کیونکہ اسی کے نتیجے میں انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ جب معاشرے میں انصاف پھلے پھولے گا تو یقینی طور پر ظالم اور مظلوم کا فرق واضح ہو جائے گا اور ظالم واقعی ’’ظالم‘‘ نظر آئے گا۔ پھر طبقات بڑھنے کی بجائے کم ہوں گے۔ امراء اور مراعات یافتہ لوگوں پر مشتمل نئے طبقے اسی لیے تیزی سے جنم لے رہے ہیں کہ معاشرے میں انصاف نہیں۔ اگر انصاف ہو گا تو پھر ان طبقوں کا بھی سدباب ہو سکے گا۔ قانون کی حکمرانی اور عملداری کے لئے حکمرانوں کی نیت اور اس کے ساتھ ساتھ پولیس اور سول عدالتوں کا مؤثر ہونا ضروری ہے۔ ہمارے حکمران بظاہر قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے جنم لیتے ہیں۔ جب ملک کے سینکڑوں اراکین اسمبلی اربوں روپے کی مراعات لیں (جو فی کس لاکھوں میں بنتے ہیں) جبکہ دوسری جانب کم ازکم اجرت 12 ہزار مقررکر کے اس پر بھی عملدرآمد نہ کرایا جائے تو معاشرے میں قانون کی حکمرانی بھلا کیسے ممکن ہے؟ جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پراکسی (Proxy) حاضری لگائی جائے اور کئی ماہ تک اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت نہ کرنے والوں کی رکنیت بھی بحال رہے۔ ”غیرجانبدار“ سپیکر مسلم لیگ(ن) کے راگ الاپے، ارکان اسمبلی اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے لئے ایسا گٹھ جوڑ کرلیں کہ اپوزیشن کاتصور ہی ختم ہو جائے۔ تو جناب خود سوچیں کیا ہو گا؟ قانون سازی کرنے والے ہی جب قانون کی دھجیاں بکھیریں گے تو عوام میں قانون کی حکمران کی خواہش بھی دم توڑ جائے گی۔جب حکمران اپنی پسند ناپسند پر پولیس افسران اور بیوروکریسی کو ترقی سے نوازیں گے اور ارکان اسمبلی اپنی مرضی کے ساتھ اپنے حلقے کے تمام تھانوں میں ایس ایچ اوز تعینات کروائیں گے تاکہ ان کے حکم پر پرچے درج اور خارج کیے جائیں تو قانون کی حکمرانی کیسے ممکن ہو گی۔ ملک میں تنخواہوں کے 23 گریڈ ہونے کے باوجود حکمران جس افسر کو چاہیں الاﺅنسوں کی مد میں بادشاہوں کی طرح لاکھوں روپے سے نواز دیتے ہیں۔جہاں ارکان اسمبلی اپنے ترقیاتی فنڈز کمیشن لیکر دوسرے حلقوں میں منتقل کردیں اور جہاں ازکان اسمبلی ٹھیکیدار سے ترقیاتی کاموں میں کمیشن وصول کریں۔ وہاں قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر کیسے ہوگا۔جس معاشرے میں سول عدالتوں میں ناجائز قبضے کے خلاف دادا درخواست دے اور پوتے کو فیصلے کا انتظار کرنا پڑے ۔ جہاں تاخیری حربے ہی انصاف کو کھا جائیں۔ چور، ڈاکو اور جیب کترے کی گرفتاری پر پولیس اپنے گواہ ڈالے وہاں قانون کی حکمرانی کیسے ممکن ہے۔ اور جس معاشرے میں عدالتی نظام ایسا ہو کہ حج کرپشن کیس میں ایک عدالت سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی، ڈی جی حج راﺅ شکیل اور دیگر ملزموں کو قید اورجرمانے کی سزائیں سنائے اور ہائی کورٹ ایک سال بعد انہی سزاﺅں کو کالعدم قرار دے کر ملزمان کو باعزت بری کردے اور کوئی یہ پوچھنے والا بھی نہ ہو کہ اگر وہ سزا کسی عدالت نے غلط سنائی تھی اور اس کے نتیجے میں ان شخصیات کی ملک بھر میں توہین ہوئی تو کیا غلط سزا سنانے والے کو بھی کوئی سزا سنائی جا سکتی ہے؟ ایسے میں اگر کوئی یہ کہے کہ حامد سعید کاظمی کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ سعودی عرب مکتب فکر سے تعلق نہیں رکھتے تھے تو پھر ایسی باتوں پر توجہ بھی دینی چاہیے۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر ایسے ارکان اسمبلی، پولیس اور عدالتوں کے نظام سے قانون کی حکمرانی ممکن نہیں تو پھراس نام نہاد جمہوری نظام کو بدلنا ہوگا۔اور نظام بدلنے کے لئے اس نظام کے ٹھیکیداروں کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی جبکہ جدوجہد کے لئے لیڈرشپ کی ضرورت ہوتی ہے۔اس معاشرہ کے ناخداﺅں کے خلاف جدوجہد کے لئے صادق اور امین کہاں سے ڈھونڈیں گے۔ کہتے ہیں کہ ڈھونڈے سے خدا بھی مل جاتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسا لیڈر نہیں مل سکتا۔ پھر سوچتا ہوں مایوسی گناہ ہے اور اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ ظاہر ہے یہ تو کہنے سے رہا کہ اس جمہوری نظام سے آمریت ہی بہتر ہے۔
فیس بک کمینٹ