بلوچستان باقی ماندہ صوبوں کی نسبت نہ صرف قدرتی وسائل سے مالامال ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بلوچستان کو مزید خوبصورت اور دلکش بنانے کے لئے 750 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی سے بھی نوازا ہے۔ بلوچ ساحلی پٹی پر گڈانی سے لے کر جیونی کے آخری کونہ ایرانی سرحد تک بلوچ ماہی گیر آباد ہیں۔ یہاں 90 فیصد افراد براہِ راست شعبہ ماہی گیری سے منسلک ہیں۔ یہ ماہی گیر انتہائی جاں فشانی اور محنت کے ساتھ گہرے سمندر میں کئی ناٹیکل میل کا فاصلہ طے کر کے مچھلیاں شکار کرتے اور نہ صرف اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں بلکہ ریاست انہی غریب ماہی گیروں کے سمندری شکار کو عالمی منڈیوں میں امپورٹ کر کے سالانہ اربوں ڈالرز زرمبادلہ حاصل کرتی ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ آج تک کسی بھی حکومت نے یا اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والی سیاسی پارٹیوں خصوصاً بلوچ قوم پرست جماعتوں نے بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے ماہی گیروں کے اہم اور حل طلب مسائل کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جس کے باعث آج بھی ساحل کے ماہی گیروں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے ۔ان ماہی گیروں کو شکایت ہے کہ ان کے شکار کرنے کی حدود میں اکثر غیر قانونی ٹرالرز آ کر ممنوعہ جال استعمال کر کے سمندری حیات کی نسل کشی میں مصروف عمل ہیں ۔ جس سے ماہی گیر معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ ماہی گیروں کے مطابق بعض اوقات وہ اپنے قیمتی جالوں سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ کیونکہ بڑے بڑے ٹرالرز اورغیر قانونی فشنگ کرنے والی لانچ ان کے جال کاٹ کر سمندر برد کرتی ہیں۔ لوکل ماہی گیروں کے مطابق ساحلی علاقوں میں ٹرالر مافیا کی بلا روک ٹوک یلغار کے باعث ان علاقوں میں ماہی گیری کی صنعت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مقامی ماہی گیروں کے مطابق بلوچستان کی سمندری حدود میں جو ممنوعہ جال استعمال کیا جاتا ہے دراصل یہ جال باقاعدہ بھارت سے پاکستانی ماہی گیروں کو سمندری حیات کی نہ صرف نسل کشی کے لئے فروخت کی جاتی ہے بلکہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت متحدہ عرب امارات کے راستے پاکستان درآمد کیا جاتا ہے۔ جب اس ممنوعہ جال کو سمندر کی تہہ تک پہنچایا جاتا ہے تو سمندر کے اندر موجود مچھلیاں ، جھینگے اور سمندری حیات کی دیگر اقسام اس جال میں پھنس جاتی ہیں۔سمندری امور کے ماہرین کے مطابق سمندر میں موجود مچھلیاں سمندر کے اندر چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتی ہیں. جب سمندر میں اس طرح کے جال استعمال کیے جاتے ہیں تو اس سے مچھلیوں کی افزائش نسل شدید خطرے میں ہوتی ہے۔ مقامی ماہی گیروں نے بتایا کہ اس وقت بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے بیس لاکھ سے زائد ماہی گیر فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ ان کے مطابق ماضی کے مقابلے میں آج سمندری حیات کی نسل کشی زیادہ ہو رہی ہے. اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ آج کئی اقسام کی مچھلیاں ناپید ہیں۔ اگر حکومت وقت اور متعلقہ محکموں نے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی تو وہ دن دور نہیں جب ساحل سمندر کے لاکھوں افراد بے روزگار ہوجائیں گے۔ پھر بعد میں انہی ماہی گیروں کی بدولت سالانہ اربوں ڈالرز زرمبادلہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ آج کے اس جدید ترین دور میں بھی ماہی گیری کے شعبہ کو ابھی تک صنعت کا درجہ حاصل نہیں ہے اور نہ ہی ماہی گیر کو مزدور کا درجہ دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ عمل انسانی حقوق کے بنیادی چارٹرکی بھی خلاف ورزی ہے کہ ریاست کے مزدور کو آپ مزدور نہیں سمجھتے۔ دوسری جانب گوادر ، پسنی ، جیوانی اور اورماڑہ میں موجود تمام پرائیویٹ فش کمپنیاں بھی ان مقامی ماہی گیروں کے ساتھ زیادتی کر رہی ہیں۔ یہ بیچارے ماہی گیر کتنی محنت اور مشقت کے بعد اپنی مچھلیوں کو لاتے ہیں تو وہ مختلف سیٹھوں اور ایجنٹ کے ذریعے کمپنیوں تک پہنچ جاتے ہیں مگر ان محنت کشوں کو ان کا اصل اور صحیح معاوضہ نہیں دیا جاتا جو کہ ان کا حق ہے اور نہ ہی حکومت غریب ماہی گیروں کو جال ، انجن ، اور دیگر ضروری آلات فراہم کرتی ہے۔ماہی گیروں کے حقوق کے لئے کئی نام نہاد تنظیمیں بنائی گئی ہیں جن کا مقصد ماہی گیروں کے نام پر کمانا ہے۔ یہ تنظیمیں مختلف این جی اوز کے ساتھ مل کر ماہی گیری اور چائلڈ لیبر کے نام پر پروگرامز اور فوٹو سیشنز کرتی ہیں۔ ان تنظیموں اور این جی اوز کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مقامی ماہی گیروں کے مطابق حکومت ، فش کمپنیاں ، نام نہاد ماہی گیر تنظیمیں ، این جی اوز سب ان کے استحصال میں برابر کی شریک ہیں۔