گاؤں کے سارے بزرگ اُس پنچایت میں آن بٹیھتے ہیں اور مقدمہ شروع کیا جاتا ہے۔ ایک لڑکی سے زیادتی کا مقدمہ، پنچایت میں مجرم پیش ہوتا ہے اور مظلوم بھی ۔ 17 سالہ لڑکی کے ماں، باپ بہت امید لیئے فیصلے کا انتظار کرتے ہیں۔ بزرگ غور سے سارا قصہ سنتے ہیں اور فیصلے کی گھڑی آن پہنچتی ہے۔ حکم دیا جاتا ہے کہ جس طرح سے 17 سالہ کے ساتھ زیا دتی ہوئی ، اس ملزم کی بہن کے ساتھ بھی ہونی چاہیئے۔ ملزم کی تینوں بہنیں پیش کی جاتی جاتی ہیں اور زیادتی کے لئے سب سے چھوٹی یعنی 12 سالہ کا انتخاب ہوتا ہے۔ 12 سالہ سے زیادتی یقینی بنائی جاتی ہے اور یوں انصاف کے نام پر ایک اور بے انصافی کی جا تی ہے۔
ٰاس ظلم پر ایکشن تو لیا گیا لیکن سوچیئے کہ اُس 12 سالہ بچی کے معصوم سے ذہن پر کیا گزری ہو گی کہ اُس کو آخرکس جرم کی سزا ملی؟ اس اندوہناک واقعے نے بہت سوں کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کر دیا کے کیا ہم آج بھی زمانہ جہالیت میں ہی رہ رہے ہیں اور کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟ یا جو دعوے ہم نبی پاک ﷺ سے محبت کے کرتے ہیں کیا وہ سچے بھی ہیں؟
کیا نبی پاک ﷺ کی اُمت لڑکیوں کو عزت دینے کی بجائے انہیں ایسے ذلیل کرے گی؟ تو پھر آخری سوال یہ کہ کیا ہم مسلمان بھی ہیں؟
فیس بک کمینٹ