ایک سردار جی ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے اور فرمایا کہ میری بیوی اونچا سننے لگی ہے کوئی دوائی دے دیں۔ ڈاکٹر نے پوچھا‘ کتنا اونچا سنتی ہے؟ سردار جی نے بے بسی سے کہا‘ یہ تو مجھے نہیں پتا۔ ڈاکٹر نے حوصلہ دیا اور کہنے لگا کہ سردار جی آپ گھر جائیں اور پہلے بیس فٹ کے فاصلے سے بیوی کو آواز دیں‘ اگر وہ نہ سنے تو دس فٹ کے فاصلے سے آواز دیں‘ اگر پھر بھی نہ سنے تو پانچ فٹ کے فاصلے سے آواز دیں‘ جتنے فاصلے سے وہ آواز سن لے وہ فاصلہ مجھے آ کر بتا دیں‘ میں سمجھ جاؤں گا کہ کون سی دوائی کتنی مقدار میں دینی ہے۔ سردار جی خوش ہو کر گھر گئے‘ بیوی کچن میں مصروف تھی‘ سردار جی کے بیڈ روم اور کچن کا فاصلہ لگ بھگ بیس فٹ تھا۔ سردار جی بلند آواز بولے ”آج کیا پکایا ہے؟‘‘۔ کچن سے کوئی آواز نہیں آئی… وہ تھوڑاآگے بڑھے اور دس فٹ پر آ کر پھر بولے ”آج کیا پکایا ہے؟‘‘… پھر خاموشی رہی… اب کی بار وہ کچن کے اندر آ کر پانچ فٹ کے فاصلے سے بولے ”آج کیا پکایا ہے؟‘‘ یہ سنتے ہی بیوی یکدم گھومی اور غصے سے چلا کر بولی ”مریں تیسری دفعہ بتا رہی ہوں آلو قیمہ بنایا ہے‘‘…!!!
ہر اونچا سننے والے کو لگتا ہے کہ دوسروں کی سماعت کمزور ہے‘ اسی لیے وہ ساتھ والے سے سرگوشی بھی کریں تو آواز تیسرے محلے تک سنائی دیتی ہے۔ یہ بات مجھے کبھی سمجھ نہیں آ سکی کہ نظر کمزور ہونے کی صورت میں لوگ عینک بخوشی لگا لیتے ہیں‘ لیکن کم سنائی دیتا ہو تو کان میں آلہ سماعت لگاتے ہوئے شرم کیوں محسوس کرتے ہیں؟؟؟ مجھے ایسے لوگوں سے بہت ڈر لگتا ہے جو اونچا سنتے ہیں۔ یہ ہر بات کا مطلب اپنے مطابق نکال لیتے ہیں اور جواب بھی ویسا ہی عنایت فرماتے ہیں۔ لاہور کے ایسے ہی ایک شاعر صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ مشاعروں میں اپنی غزل سناتے وقت بڑے اہتمام سے کان میں ”ٹوٹی‘‘ لگاتے ہیں‘ تاہم دوسروں کی باری آتی ہے تو ”ٹوٹی‘‘ نکال کر جیب میں رکھ لیتے ہیں۔ میرے ایک دوست بھی اونچا سنتے ہیں۔ کوئی اُن کے سامنے چیونگم بھی کھا رہا ہو تو مسکرا کر یوں سر ہلاتے جاتے ہیں گویا اُس کی ساری بات دھیان سے سن رہے ہیں۔ اُن کی مصیبت یہ ہے کہ اکثر اوقات اُنہیں اپنی بھی ”آوازیں‘‘ سنائی نہیں دیتیں۔ گھر والے اُن سے الگ تنگ ہیں‘ گھر میں بچے دھماچوکڑی مچا رہے ہوں یا بلند آواز ٹی وی بھی لگا ہو تو بیگم سے پوچھ لیتے ہیں کہ آج گھر میں اتنا سناٹا کیوں ہے؟؟؟ موبائل پر بھی انہوں نے بیل بند کر کے صرف وائبریشن آن کی ہوئی ہے۔ ایک دفعہ میں نے اُن سے پوچھا کہ اعلیٰ حضرت! آپ کان میں آلۂ سماعت کیوں نہیں لگاتے؟؟؟ انہوں نے پورے غور سے میرا جملہ سنا‘ پھر محتاط نظروں سے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے میرے کان کے قریب ہو کر فل والیوم سرگوشی میں بولے ”وہ تو ڈورے لگاتے ہیں ناں؟‘‘ میں نے دانت پیس کر ان کے کان میں چلاتے ہوئے کہا ”آپ بھی ڈورے ہیں… بلکہ ڈورے مان ہیں‘ لیکن مان نہیں رہے‘‘۔ میرا ایک کزن دوبئی میں رہتا ہے اور فون پر اتنی اونچی بولتا ہے کہ کئی دفعہ میں فون آف بھی کر دوں تو اُس کی آواز باآسانی مجھ تک آ رہی ہوتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اونچا سننے کی بیماری زیادہ تر مردوں میں ہوتی ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ یہ بیماری عورتوں اور لڑکیوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ ایسی لڑکیاں بظاہر ہلکی سے ہلکی سرگوشی بھی سن لیتی ہیں۔ اِن کی سماعت بھی نارمل ہوتی ہے لیکن کچھ خاص بات سننی ہو تو اِن کے کان یکدم بند ہو جاتے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ اپنی کلاس فیلو سے پوچھا کہ آج کیا تاریخ ہے؟ اطمینان سے بولی ”15 دسمبر‘‘ … میں نے پوچھا ”ہاسٹل میں چھٹیاں کب ہو رہی ہیں؟‘‘ اطمینان سے بولی ”اگلے ہفتے‘‘۔ میں نے کہا ”تم بہت پیاری لگ رہی ہو؟‘‘ یکدم خوش ہو کر بولی ”کیا… کیا کہا‘ پھر کہنا‘ میں نے سنا نہیں…‘‘ ایسی لڑکیاں اپنی مرضی کی بات ہمیشہ دو دفعہ سنتی ہیں اور کئی کی تسلی تو دو دفعہ میں بھی نہیں ہوتی لہٰذا یکدم معصوم بن کے پوچھ لیتی ہیں ”میں سمجھی نہیں آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟‘‘ شادی شدہ عورتیں بھی اونچا سنتی ہیں لیکن صرف اپنے شوہر کی بات۔ رات کو سب سوئے ہوئے ہوں تو یہ ٹی وی کی ہلکی سی آواز کھول کر بھی ‘عشق کی اذیت‘ ڈرامہ باآسانی دیکھ اور سمجھ لیتی ہیں لیکن شوہر اگر رات کو پانی بھی مانگ لے تو یہ جھٹ سے آنکھیں بند کر کے گہری نیند سوتی بن جاتی ہیں۔ اپنا بھائی فون کر کے ”اوجڑی‘‘ پکانے کی فرمائش بھی کر لے تو کہیں نہ کہیں سے خرید کے پکا لیتی ہیں‘ لیکن شوہر آلو کی بھجیا کی فرمائش بھی کر دے تو رات کو دال کدو بنا کر بیٹھی ہوتی ہیں۔ شوہر اور بیوی کی لڑائی کے دوران بیویاں اکثر یہ مقبولِ عام جملہ استعمال کرتی ہیں کہ ”میں تو کبھی بولتی ہی نہیں‘‘۔ بالکل سچ کہتی ہیں‘ اپنی آواز سنائی دے تو بیچاریوں کو کچھ پتا چلے۔ شادی کے دس پندرہ سال بعد بیویوں کے اونچا سننے کی عادت اتنی پختہ ہو جاتی ہے کہ شوہر اگر کان میں کوئی محبت بھرا جملہ بھی کہہ دے تو اِن کو لگتا ہے جیسے گالی دی ہے۔ دلہن بنی لڑکیاں بھی اونچا سنتی ہیں‘ قاضی نکاح کے کلمات بولے تو حرام ہے جو یہ قبول ہے‘ قبول ہے بول جائیں‘ مجبوراً ساتھ بیٹھی نانی کو اِن کا سر پکڑ کر ہاں میں ہلانا پڑتا ہے۔ مردانہ دفتروں میں کام کرنے والی خواتین یا تو مکمل بہری ہوتی ہیں یا شائد بن جاتی ہیں‘ اچھا ہی کرتی ہیں۔
لوگوں کے بہرے پن کی وجہ سے ہی اب ریڑھی پر شربت بیچنے والا بھی سپیکر پر شربت بیچتا ہے‘مذہبی اجتماعات میں بے شک دو سو بندے موجود ہوں تاہم لائوڈ سپیکروں کی تعداد بیس تیس ضرور ہوتی ہے‘ بسوں ویگنوں والوں نے بھی عوام کی کمزور قوتِ سماعت کے باعث ایسے پریشر ہارن لگوا لیے ہیں کہ ویگن چوبرجی سے ہارن بجائے تو آواز ‘کاہنے کاچھے‘ تک جاتی ہے۔ اونچا سننے کی بیماری اتنی عام ہو گئی ہے کہ اب کوئی دھیمے لہجے میں بات کرے تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی‘ جلسے جلوسوں میں بے شک چھ چھ مائیک لگے ہوں‘ مقرر چیخ چیخ کر ہی بات کرتے ہیں۔ جہاں چیخ نہ ہو وہاں ہمیں کچھ سنائی نہیں دیتا‘ بسا اوقات تو چیخ بھی ہلکی سی سرگوشی لگتی ہے۔ ہمیں موسیقی بھی شور والی اچھی لگنے لگی ہے‘ ہیڈ فون بھی اسی لیے استعمال ہوتے ہیں کہ چنگھاڑتی ہوئی آواز کا مزا لیا جا سکے۔ اونچی آوازیں ہمارا کلچر بن گئی ہیں‘ ہم سمعی طور پر تو بہرے تھے ہی‘ ذہنی طور پر بھی ”ڈورے‘‘ ہو گئے ہیں۔ جب تک کوئی دل ہلا دینے والی حیرت انگیز خبر نظر سے نہ گزرے‘ ذہن اُسے خبر تسلیم ہی نہیں کرتا۔ تنہائی اور خاموشی کا حسن ہم سے چھن چکا ہے۔ ہم اونچا بولنے‘ اونچا سننے اور نیچا سوچنے کے عادی ہو گئے ہیں‘ دھیما پن بزدلی بن چکا ہے‘ زہر اور شور بھری تحریریں ہماری پسندیدہ غذا بنتی جا رہی ہیں۔ چلانا ہماری مجبوری اور ضرورت بنتی جا رہی ہے تاہم شور اتنا بڑھتا جا رہا ہے کہ اب کسی کی بات سمجھ نہیں آتی‘ لوگ چلا رہے ہیں کہ مہنگائی ہو گئی ہے‘ گزارا مشکل ہو رہا ہے‘ گیس نہیں آ رہی‘ ضرورت کی چیزیں پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں لیکن مسندِ اقتدار پر بیٹھے بہروں کو کچھ سنائی نہیں دے رہا‘ یہ ہر چیخ پر اپنے کان پر ہاتھ رکھ کر پوچھتے ہیں ”کیا؟؟؟‘‘۔ شائد اب شور نہیں ”کچھ اور‘‘ کرنا پڑے گا۔ شور کی صرف ایک قسم مجھے بہت پسند ہے اور وہ ہے کان پھاڑ قہقہہ‘ یہ واحد شور ہے جو کبھی میری طبیعت پر گراں نہیں گزرتا‘ تاہم اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ یہ قہقہہ مجھ پر نہیں کسی اور پر لگایا گیا ہو۔
میرے ایک دوست اونچا سنتے ہیں۔ کوئی اُن کے سامنے چیونگم بھی کھا رہا ہو تو مسکرا کر یوں سر ہلاتے جاتے ہیں گویا اُس کی ساری بات دھیان سے سن رہے ہیں۔ اُن کی مصیبت یہ ہے کہ اکثر اوقات اُنہیں اپنی بھی ”آوازیں‘‘ سنائی نہیں دیتیں۔ گھر والے اُن سے الگ تنگ ہیں‘ گھر میں بچے دھماچوکڑی مچا رہے ہوں یا بلند آواز ٹی وی بھی لگا ہو تو بیگم سے پوچھ لیتے ہیں کہ آج گھر میں اتنا سناٹا کیوں ہے؟؟؟
(بشکریہ:روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ