اندرون و بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد، اندرون ملک وکالت کر کے، پھر جج بن کر خدمات پیش کرتے، اور ترقی کرتے کرتے ریاست کی اعلی ترین عدالت تک پہنچنے والے پانچ ججوں کے ایک ایسے متفقہ فیصلے پر "یوتھیوں” کو اعتبار نہیں جس فیصلے تک پہنچنے سے پہلے سرکاری وکیلوں کو بھی بھرپور سنا گیا تھا۔ نیز یہ بھی کہ ایسا فیصلہ قوم کی بھرپور امنگوں کا ترجمان بھی تھا، اور اس کے سامنے آنے پر اکیڈیمکس اور انٹیلیجنشیا نے سکون کا سانس لیا تھا۔
دوسری طرف ایک ایسے بندے کے خط کو جیسے الہامی صحیفے کا درجہ دیا گیا ہے، جس کا اوڑھنا بچھونا مسلسل غیر ممالک میں تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ مذکورہ پاکستانی سفارتکار نے جو کچھ سنا، سمجھا، یا مشاہدہ کیا، اور پھر وہ سب کچھ اپنے الفاظ میں ایک مراسلے میں لکھ دیا، اس میں کمی بیشی یا سمجھنے میں کوتاہی یا فرق یقیناً ہو سکتا ہے. نیز یہ کہ اس فرد واحد کے ذاتی سیاسی میلان سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
سیاسی کھیل میں معمولی سی برتری کیلئے فردِ واحد کے اس عمومی قسم کے مراسلے پر ملک میں جمہوریت کو داؤ پہ لگانے اور زبردست سیکیورٹی رسک کے خطرات مول لینے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
حالانکہ سپریم کورٹ کا متفقہ فیصلہ کسی بھی انفرادی خط یا رولنگ سے ہزارہا گنا زیادہ معتبر سمجھا جانا چاہئے۔ گو ایوان سب سے مقدم ادارہ ہے جس سے باقی ادارے وجود میں آتے ہیں اور جہاں آئین بھی جنم لیتا ہے، مگر اسی ایوان میں غلط رولنگ پر ایکشن یا آئین کی تشریح کا حق بہرحال سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔ اس سے قبل کا ایک ریکارڈ تو یہ بھی ہے کہ، اسی ایوان میں ووٹوں کی بنیاد پر ہونے والی ترمیم کو عدالت عالیہ نے یک جنبش قلم تنسیخ کیا تھا۔
آپ محض ایک سفارتکار کو تو ہوا بنا ہی رہے ہیں، ساتھ ہی سپریم کورٹ جیسے اہم و اعلی ادارے کو مکمل طور پر پاؤں میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو یقیناً انتہائی خطرناک اقدام ہے۔ اس انتہائی اقدام سے باز رہنے کی اشد ضرورت ہے. اگر آپ خود باز نہیں آتے تو یقیناً قوم دیگر اداروں کے چیفس کیجانب دیکھنے پر مجبور ہو گی.
ایک بات یقینی ہیکہ ایک عام سے سیاسی کھیل کو آپ انتہائی دور لے جا رہے ہیں. اتنی دور کہ جہاں سے واپسی کا راستہ نہ آپکو نظر آ رہا ہے، اور نہ ہی آپ کے مخالفین کو. اور پھر بھی آپ خود کو محب وطن سمجھتے ہیں، واقعی کیا کمال کرتے ہیں.
فیس بک کمینٹ