ہمارے معاشرے میں لڑکیاں آنکھوں میں خو اب لے کر پیدا نہیں ہوتیں بلکہ پیدا ہوتے ہی چہار جانب سے اْن کی آنکھوں میں ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ماں، ماسی، چاچی اور ممانی کے دکھائے ہوئے خواب۔بہنوں، کزنز، کلاس فیلوز اور سہیلیوں کے سجائے ہوئے خواب۔فلموں، ڈارموں ، ناولوں اور شاعری کے راہیں در آنے والے خواب۔کسی اور دنیا سے بند آنکھوں میں اترنے والے حسین شہزادے کے خواب۔محبت، رومانس اور تصورات کی دنیا میں رانی بن کرر اج کرنے کے خواب کہ ہمارے ہاں بیٹیوں کو سوائے شادی کے کسی اور طور معاشرے کا کارآمد فرد بن کر زندہ رہنے کی راہ دکھائی ہی نہیں جاتی۔ پرایا دھن کے نام پر پہلی گھٹی کے ساتھ ہی اِس مخلوق کو انسان کی بجائے جائیداد ہونے کا یقین دلا دیا جاتا ہے کہ جس نے اپنی سماجی بقا کی غرض سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باجود کسی جاہل کی خوشنودی کے لیے اپنی تعلیم اور پروفیشن کی قیمت پر محض گھریلو ملازمہ بن کر نہ صرف اْس کے جوتے کھانے ہیں بلکہ ساس ، نندوں اور دیورانیوں کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے علاوہ اکثر سسرالی مردوں کی جنسی ہوسناکی کا نشانہ بنتے ہوئے بھی ’’نیک پروین‘‘ بن کر گھر بچانے کا فریضہ سر انجام دینا ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے ہر قسم کی جائیداد پر حقِ غاصبیت کو’’غیرت ‘‘ کانام دیا جا چکا ہے کہ جس کی آڑ میں کوئی بھی مہم جو اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ میں کسی بھی انتہا کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالے تو پھر بھی دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ۔قانون ، سماج اورخود ساختہ سماجی اقدار کے ٹھیکیدار سبھی اْس کی حمایت میں یکسو۔کسی غریب حصہ دار نے اپنی ضرورتوں کے لیے اپنے حصے کی اراضی بیچنی ہو تو یہ اْس وقت تک ’’ماں ‘‘ کے درجے پر فائز رہتی ہے کہ جب تک کوئی بااثربھائی بند اِسے اجنبی خریدار کی اچھی بھلی پیشکش کے مقابلے میں اونے پونے ہتھیانہ لے۔یہی رویہ عورت نام کی جائیداد سے روا رکھا جاتا ہے کہ جب کبھی دشمن داری میں کسی سے دشمنی چکانی ہو تو بھیڑ بکریوں کے اِس ریوڑ میں سے جو بھی ہاتھ لگے، چھری کے نیچے رکھا اور قتل کا پرچہ کٹا دیا دشمن پر ۔بس پھر کیا اپنی شرائط پر راضی نامہ، شملہ بھی بلند اور زمین کی حدود میں بھی من چاہا اضافہ۔بچپن میں عیدِ قرباں پر قصابوں سے سنا کرتے تھے کہ اگر کسی جانور کے سامنے دوسرے کو ذبح کیا جائے تو خوف کے مارے اْس کا وزن کم ہو جاتا ہے ۔مگر ہم کس معاشرت کا حصہ ہیں کہ اپنی بہنوں، بیٹیوں کو دھن جائیدادقرار دیتے ہوئے بھی مسلسل خوف کے عالم میں رکھتے اور پالتے پوستے ہیں۔والدین کی توقعات کا خوف، بھائیوں کی غیرت کا خوف،شریکوں کے شریکے کا خوف۔ محلے داروں کی ہوسناک سازشوں کا خوف۔اپنی عصمت بچائے رکھنے کے باوجود الزام تراشیوں کا خوف۔گھر کے مردوں سے دگنی مشقت کے باوجود محدود غذائی مواقع اور ’’عزت‘‘ کہلائے جانے کے باوصف اپنی بقا کا خوف۔
میں حیران ہوتا ہوں کہ اِن سبھی دشمنِ جاں جکڑ بندیوں کے ہوتے ہوئے بھی لڑکیاں کس طور اپنی زندگی اور زندہ رہنے کی جدوجہد کا اہتمام کئے رہتی ہیں۔بچپن میں وہ کھیل کھلونوں میں پناہ ڈھونڈتی ہیں اور لڑکپن میں اپنے آپ کوتصوراتی تحفظات میں لپیٹ لپاٹ کر۔یہی وہ دور ہوتا ہے کہ جہاں لڑکیوں کی اکثریت کو دلہن بنائے جانے کے خواب دکھا تے ہوئے اْن کے بچپنے کو براہِ راست بلوغت کی ذمہ داریوں میں دھکیل کر اْن سے پختہ کار عورتوں کی سی گھر داری کی توقعات رکھی جاتی ہیں۔شادی کے اِس عمل کو گڑیوں کا کھیل سمجھنے والی بچیوں سے جب گھرداری نہیں ہو پاتی تو ہر طرف سے پڑنے والے جوتے انہیں ایسی راہ پر ڈال دیتے ہیں کہ جس کی منزل کم از کم زندگی نہیں ہوتی۔ اگر ایسی زندگی کو زندگی کہہ بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ’’ زندگی‘‘ اپنے ہونے کے معنی بیان کرنے اور اِس کا مفہوم سمجھانے سے قاصر ہی ہوتی ہے۔
عورت کو جائیداد قرار دیے جانے کے بے رحمانہ عمل میں سب سے خوفناک پہلو اِس کی مالیاتی درجہ بندی کا ہے کہ جس میں جہیز کی کی اضافی جڑت شیئر مارکیٹ کی طرح گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ باپ کے پاس دھن ہو تواِس ڈیفنس کے پلاٹ جیسے’’پرائے دھن‘‘ کا لکھنا پڑھنا، خوبصورت یا ذہین ہوناضروری نہیں ہوتا، بس ’’ملکیت کا تبادلہ‘‘ہوا اور گھر بدل گئے۔مسئلہ تو وہاں ہوتا ہے کہ جہاں باپ کے پاس دھن نہ ہو تو اعلیٰ تعلیم،بے پناہ خوبصورتی اور ذہانت کی فراوانی بھی لڑکی کو ’’کچی آبادی‘‘ کی جائیداد سے زیادہ کا درجہ نہیں دلوا سکتی۔اِس قسم کے حالات میں شدید فرسٹریشن کا شکار لڑکی اگر اپنی عقلیت اور خود اعتمادی کو اپنا کْل اثاثہ سمجھ کر اپنی سماجی سطح اور تنگدستی کے ہاتھوں بے بس ہوچکے ’’پدر سری‘‘ نظام سے بغاوت کرتے ہوئے بیچ بازار میں آکر اپنا سب کچھ داؤ پے لگا دے تو ’’قندیل‘‘ کہلاتی ہے۔بصورت دیگر کسی خواب فروش کے ہتھے چڑھ کر کبھی نہ شرمندہ تعبیر ہونے والے سنہرے خوابوں کی ناکامی پر اپنے ہی ہاتھوں اپنی جان لینی پڑے تووہ ’’رابعہ نصیر‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔میں کہا کرتا تھا کہ عورت خوبصورت اور مرد ذہین ہو تو انہیں دشمن پالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خوبصورت عورت اپنی خوبصورتی اور ذہین مرد اپنی ذہانت کے ہاتھوں ہی بربادی کے پاتال میں اتر جاتے ہیں۔ اب اِن بدقسمت انسانوں میں تیسری قسم اْن لڑکیوں کی بھی شامل ہو چکی ہے کہ جو سماجی لحاظ سے بے شک کم تر ہوتے ہوئے بھی جرات آزمائی کے اعتبار سے سبھی کشتیاں جلاکرغاصب سماج کو اپنی باغیانہ روش سے متحیر کر رکھا ہے۔ایسی لڑکیاں شاہ صدردین کی قندیل ہوں یا بھکر کی رابعہ نصیر ، وہ تو پیدا ہوتے ہی اپنی موت کو اِس لیے جلو میں لے کر چلتی ہیں کہ معاشرے میں رائج مالیاتی درجہ بندی کی دیوی پر بَلی چڑھانے کے لیے اْن کے پاس بچا ہی کیا ہوتا ہے۔
مدرسری نظام کو مغلوب ہوئے صدیاں بیت چکیں مگر مردانہ فوقیت پر مبنی نظام کا منافقانہ کھوکھلا پن ابھی تک اپنی پندار کے تحفظ کی تگ ودو میں ہے کہ جسے عورت اپنے وجود کی نفی سے باز رکھنے اور اپنی زندگی کے معاملات میں ’’حقِ انتخاب‘‘ اور اِس کا استعمال اپنے پاس رکھنے کے لیے بار بار چیلنج کرتی رہتی ہے۔ اِس چیلنج سے نمٹنے اور عورت کو صنفی لحاظ سے مغلوب رکھنے کے لیے ہر دور میں مردانہ سماج کا موثر ترین حربہ معاشی بالا دستی ہی رہا ہے۔مگرمردانہ طرزِ معاشرت کے منفی ہتھکنڈوں کا شکارلڑکیوں نے جان لیا کہ اگر اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنا ہے اور اپنے معاملات میں حقِ انتخاب اور اْس کا استعمال اپنے پاس رکھنا ہے تو معاشی لحاظ سے برتر ہونے پڑے گا۔اِس جدوجہد کو اگرچہ بغاوت اور بے غیرتی سے تعبیر کیا گیا مگراِن ’’حریت پسند‘‘ لڑکیوں نے ’’غیرت بریگیڈ کے رنگروٹس‘‘ کو اپنی اوقات میں رکھنے کے لیے معاشی برتری کا فارمولہ انہی پر استعمال کرتے ہوئے اْن کے منہ اْسی طرح بند کر دیے کہ جیسے ایک مرد سربراہ اپنی زیرِ نگیں مستور مخلوق کا کئے رہتا ہے۔قندیل بلوچ جب تک’’ فوزیہ ‘‘رہی تو شوہر، باپ اور بھائیوں کی خود ساختہ غیرت کے سبھی ہتھیاراْسی پر استعمال کئے جاتے رہے مگر جیسے ہی وہ قندیل بلوچ بنی اور ’’نوٹ دکھانے‘‘ شروع کئے تو غیرت کے یہ خونخوار علمبردار پتلی گلی سے نکل لیے کیونکہ ہمارے معاشرے میں مردانہ غیرت کا تصور معاشی محرومی سے جڑا ہوا ہے۔اِس نوعیت کی معاشی برتری اگر کسی ’’قندیل‘‘ میں در آئے تو وہ اپنے ہزیمت زدہ ماضی کے سبب غصے اور انتقام کی رو میں بہتے ہوئے اپنی تذلیل اور ملامت کی قیمت پر بھی دنیا کے ہر اْس شخص کو تباہ و برباد کر دینا چاہتی ہے کہ جو اْس کے عزائم کی راہ میں حائل ہو۔
میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ یہ کس قسم کی غیرت ہے جو ایک بہن بیٹی کو اْس کا وہ حق دینے کو تو تیار نہیں کہ جو اْسے مذہب بھی عطا کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتا مگر اْسی بہن بیٹی کو قتل کرنے کے بعد اْس کا برہنہ جسم پوسٹ مارٹم کرانے کے لیے مردہ خانے کے مَردوں کے حوالے کرتے ہوئے نہ تو کوئی غیرت جاگتی ہے اور نہ ہی کسی شرمندگی کا سامنا۔مرنے والی کوئی قندیل ہو یا رابعہ نصیر، یہ کسی ایک لڑکی کی موت نہیں ہوتی۔یہ ہر اْس محروم لڑکی کی موت ہوتی ہے جواپنی خوبصورتی ،ذہانت اوردستیاب معاشی وسائل کے عدم توازن کے سبب خواب فروشوں کی چرب زبانی کا شکار ہو کر دربدر ہو جاتی ہے، تلاشِ مرگ میں۔کیونکہ نہ تو اْسے کسی پر اعتماد رہتا ہے اور نہ کسی اور کو اْس کا اعتبار۔