زمانہ ء قدیم میں جب کسی مفتوحہ علاقے سے ’’حسنِ سلوک ‘‘کا مظاہر ہ کیا جاتا تھا تو اُس سے اُس کا حافظہ،زبان، تاریخ، ثقافت، تہذیب،معاشرت اور معیشت چھین لی جاتی تھی۔پیٹ بھر روٹی اور زندہ رہنے کی روزی سے محروم کرنا ہوتاتودَس کو ایک گنا جاتا۔آبادی لاکھ کی ہوتی تو وسائل ہزار کے فراہم کئے جاتے تاکہ بھوک ناچتی رہی اور غربت اپنے پنجے گاڑے رکھے۔بیمار سو ہیں تو صحت کی سہولتیں پانچ کے لیے۔ سکول جانے کے لائق بچے پانچ سو ہیں تو سکول صرف پچاس کے لیے۔نہ سڑکیں، نہ کارخانے اور نہ ہی ترقی کے ذرائع تک رسائی کے وسیلے۔ اِس طرح اِن حربوں کو بروئے کار لا کر وہ مفتوحہ علاقے اور اُس کے مکیں حملہ آروں اور قبضہ گیروں کے سامنے سراٹھانے کی سکت سے بھی محروم کر دیے جاتے۔ پاکستان میں سرائیکیوں سے جو ’’احسن‘‘ سلوک کیا گیا وہ شاید ہی دنیا میں کسی اور قومیت کے حصے میں آیا ہو۔2017ء میں ہونے والی چھٹی مردم شماری سے قبل تو سرائیکی زبان کا نام ونشان اس طرح مٹایا گیا کہ اُس کا خانہ تک مردم شماری کے فارم میں موجود نہیں تھا ۔ کیسا اندھیر کہ زبان بولنے والے تو کروڑوں کی تعداد میں موجود مگر اُن کی زبان سرکاری ریکارڈ پر اپنے نام سے موجود ہی نہیں بلکہ سرائیکی زبان کو اُس کے جائز مقام سے محروم کرنے کے لیے اُس کے چہرے پر دوسری زبانوں کا مکوٹھا چسپاں کر دیا گیا بعینہ جیسے 1969ء میں ون یونٹ توڑے جانے کے وقت طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی میں بہاول پور کو صوبائی حیثیت دینے کی بجائے پنجاب میں ضم کر دیا گیا تھا۔یوں چار کروڑ سے زائد سرائیکی بولنے والوں سے اُن کی لسانی و تہذیبی شناخت ، اُن کا حقِ خود اردایت اور حقِ حکمرانی تک چھین لیا گیا۔نصف پنجاب میں بولی جانے والی زبان کی شناخت ختم کر دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وسیب میں پانچ سرکاری ریڈیو اورایک ٹی وی اسٹیشن ہونے کے باوجود سرائیکی زبان کو کل نشریات میں سے لگ بھگ دس فیصد وقت دیا جاتارہا ہے۔ یہ بھی سرائیکی زبان اور اِس کے بولنے والوں کی شناخت کو سرکاری سطح پر مٹائے جانے کا اثر تھا کہ وہ آج تک مادری زبان میں تدریس کے حق سے بھی محروم چلے آتے ہیں۔نہ اُن کا مقامی ملازمتوں میں حصہ نہ وفاقی یا صوبائی سطح پر کوٹہ اور نہ ہی صوبائی اور وفاقی پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحانوں میں سرائیکی بطور اختیاری مضمون شامل ہو سکی۔ یہ بھلا کہیں تاریخ میں انسانی سطح پر ممکن ہوا کہ آپ چینی زبان بولنے والے کو دن دیہاڑے سرکاری ریکارڈ میں لکھیں اور کہیں کہ وہ انگریزی بول رہا ہے۔مگر ایسا ممکن ہوا تو صرف سرائیکیوں کے ساتھ اور سرائیکی زبان کے ساتھ۔
1998ء تک ہونے والی پانچ مردم شماریوں میں سرائیکی وسیب کی مجموعی آبادی کو عمداً گھٹادیے جانے کے نتیجے میں اِس بد قسمت خطے کو اُس کی اصل آبادی کے مقابلے میں جہاں سالانہ بجٹ میں ظلم کی حد تک کم حصہ دیا جاتا رہاوہاں دیگر بنیادی ضرورتوں کا حصہ بھی خود بخود کم ہوتا چلا گیا۔کوئی زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب سرائیکی وسیب کے ملتان ڈویژن میں پاکپتن اور ساہیوال سے لے کر ڈیرہ غازی خاں اور راجن پور کے اضلاع بھی شامل ہوتے تھے۔جب کہ بہاول پور ڈویژن، میانوالی ، بھکر، سرگودھا اور ڈیرہ اسماعیل خان بھی اِسی وسیب کا لسانی ، ثقافتی اور تاریخی جزو تھے۔پھر یہ ہوا کہ ساہیوال کو ڈویژن بنا کر سرائیکی وسیب سے کاٹ دینے کی کوشش ہوئی اور پاکپتن اور اوکاڑہ کو لاہور سے جڑت رکھنے والے علیحدہ اضلاع بنا دیا گیا۔مگر ڈیرہ غازی خاں علیحدہ ڈویژن ہو کر بھی وسیب کا حصہ رہا۔یہاں جب وہاڑی، لودھراں ، خانیوال، لیہ ، راجن پوراور بھکر علیحدہ ضلعے بنے تو امید ہوئی کہ کسی حد تک ترقی کے درکھلیں گے لیکن یہاں کا سالانہ بجٹ ہر بار مختص کئے جانے کے بعد لاہور منتقل کر دیا جاتا رہا اور یہ اضلاع نئے ہو کر بھی ترقی اور بڑھوتری سے محروم چلے آتے ہیں۔
بہاول پو کے ساتھ عجب تماشہ ہوا۔یہ جیسا کہ ستر سال پہلے 1947ء میں تھا اُسی طرح تین اضلاع یعنی بہاول پور، رحیم یار خان اور بہاول نگر پر مشتمل چلا آرہا۔ اس دوران اِس کی کئی تحصیلیں جن میں احمد پور شرقیہ، خان پور، لیاقت پور، حاصل پور اور ہارون آباد سر فہرست ہیں ، آبادی اور پیداواری صلاحیت کے اعتبار سے پنجاب کے کئی اضلاع سے بڑی ہوکر بھی ننکانہ صاحب اور چنیوٹ جتنی حیثیت کی حامل نہ سکیں کہ ضلع بنا دی جا تیں۔ بہاول پور ڈویژن کی یہ تحصیلیں اگر بروقت ضلع بن گئی ہوتیں تو اب تک ترقی کے کئی در کھل چکے ہوتے۔لیکن جب کوئی ان بد نصیب علاقوں کو انسانی آبادی ہی سمجھنے کو تیار نہ ہو تو کیسی ترقی اور کیا اُس کے ثمرات۔
یہاں کے ظالب علموں نے نامساعد حالات کے باوجود جب لاہور والوں سے بہتر پر تعلیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ شروع کیا تووسیب کے تعلیمی بورڈز پر نااہلی اور کرپشن کا الزام لگا کر بد ترین ’’دانش کشی‘‘ کے لیے انٹری ٹیسٹ کی بنیاد رکھ دی گئی۔سرائیکی علاقوں میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں لاہور کی کروڑوں کا بزنس کرنے والی اکیڈمیوں کے سامنے ڈال دیا گیا کہ وسیب میں موجود میڈکل کالجوں میں یہاں کے طالب علم کیوں داخل ہونے لگے ہیں۔اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ یونیورسٹیاں، میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج اگر سرائیکی وسیب میں بن بھی گئے تو داخلے لاہور اور وسطی پنجاب کے طالب علموں کے ہونے لگے۔اگر اس دانش کشی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہو تو چھٹیاں ہونے سے پہلے بس اسٹینڈز اور ریلوے اسٹیشنوں پر رش دیکھ لیں کہ کہاں پڑھنے والے طالب علم عید منانے کہاں جا رہے ہیں۔یہ اِسی انٹری ٹیسٹ کے ’’فیوض‘‘ ہیں کہ سرائیکی وسیب کے دیگر زبانیں بولنے والے عوام بھی سمجھ چکے ہیں کہ اگر اُن کا ڈومیسائل ساہیوال سے اِدھر جنوب کا ہے تو بھرپور قابلیت کے باوجود ناکامی اُن کا مقدر ہی رہے گی۔یہی وہ مایوسی تھی کہ جس کے سبب اِس بار انٹری ٹیسٹ میں کم نمبر لینے والی ملتان کی ذہین ترین لڑکی جاں کی بازی ہار گئی۔
اِس بار توقع تھی کہ انیس برس بعد ہونے والی چھٹی مردم شماری میں سرائیکی وسیب کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کا ازالہ ہو گا کہ اس بار سپریم کورٹ کے توسط سے زبانوں کے خانے میں سرائیکی زبان کا کلام بنا دیا گیا ہے۔ مگر ابھی تو صرف دس بڑے شہروں کی آبادی کے اعداد و شمار ہی سامنے آئے ہیں تو سرائیکی سمیت ایم کیو ایم، سندھ حکومت اور چھوٹے صوبوں کے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔1998ء میں گیارہ لاکھ ستانوے ہزار کی آبادی والا پاکستان کا پانچواں بڑا شہر انیس برس بعد صرف سات لاکھ نفوس کے اضافے کے بعد اٹھارہ لاکھ اکہتر ہزار کی آبادی والا شہر ہو کر ساتویں نمبر پر تنزلی پا چکا ہے ۔جب کہ گوجرانوالا اور پشاور ترقی پاکر اب پانچویں اور چھٹے نمبر پر آ چکے ہیں۔مقامِ حیرت ہے کہ ملتان کی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق یہاں کی آبادی پانچ ملین یعنی پچاس لاکھ ہو چکی ہے اور وکی پیڈیا کے مطابق 2015ء میں اِس شہر کی میٹروپول اور شہری آبادی مجموعی طور پر اکاون لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔ اب کسے سچ مانا اور سمجھا جائے۔ اگر واقعات کا منطقی انداز میں جائزہ لیا جائے تو ’’کھرا‘‘ مردم شماری کے اعداد و شمار کی طرف جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔کیونکہ یہاں صرف سرائیکی ہی نہیں بلکہ سبھی محروم طبقے ’’مومنِ مبتلا‘‘ کی مانند سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں کہ ایک بار پھر اگلے دس برسوں تک دو کو ایک گنا جائے گا جس کا مطلب یہی ہوا کہ سرائیکی وسیب میں بھوک اور بد حالی ابھی ناچتی ہی رہے گی اور یہاں کے عوام کو پیٹ بھر روٹی ملنے کا خواب ابھی خواب ہی رہے گا۔یہ مردم شماری کیسا عذاب تھی کہ خواجہ سرا بھی اپنے ساتھ ہونے والی ’’مردانگی‘‘ پر نوحہ کناں ہیں۔
اندیشہ ایک اور بھی ہے۔ ابھی تو صرف آبادی کے اعداد وشمار نے مردم شماری کے نتائج کی قلعی کھول دی ہے۔ ذرا سوچیں اُس وقت کیا ہوگا کہ جب پاکستانی زبانوں کے بارے میں مبینہ طور پر حسبِ منشا ’’تحریف شدہ‘‘ اعداد و شمار کو سامنے لایا گیا۔آبادی کا لسانی تناسب ہی وہ بنیادی تنازعہ ہے کہ جس نے پاکستان کی جغرافیائی وحدت کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔اِس سے پہلے کہ یہ ماتم گلی گلی ہو، اِس نوعیت کے معاملہ جات کی کھوج پر مامور’’ محبانِ وطن‘‘ کو چاہئے کہ دیکھیں خرابی کس مرحلے پر ہوئی۔ فیلڈ میں اِس قسم کی ’’ہنرمندی‘‘ کے امکانات بہت کم تھے کہ دوہری نگاہ تھی۔ہاں اگر جمع تفریق میں کچھ ہوا ہے تو نگاہ اُسی طبقے کی طرف اٹھے گی کہ جو اس’’ستم گری‘‘ کے مفاد کے لیے جھولی پھیلائے بیٹھا ہے۔یعنی benifiacry ہے۔
فیس بک کمینٹ