ناچنا ز ما نۂ قدیم سے خوشی کے اظہار کا فطری طریقہ بیان کیا جاتا ہے۔لیکن میرے لیے یہ اُسی طرح اچھنبے کا باعث ہے کہ جس طرح خواتین کے بننے سنورنے کو اُن کا فطری حق قرار دے دیا گیا ہے۔یقیناًکوئی شاطر مرد ہی رہا ہوگا کہ جس نے عورت کو جھانسا دیا کہ تو بس بیٹھ گھر میں اور بنتی سنورتی رہ میرے لیے کیونکہ یہ تیرا’’ فطری حق ‘‘ہے۔کوئی نہیں سوچتا کہ فطرت کی کون سی کتاب کے کس باب میں کون سا آرٹیکل ہے جو محض عورت ہی کو سولہ سنگھار کرنے کا ’’فطری حق‘‘ عطا کرتا ہے۔دیکھا تو یہ جانا چاہئے کہ اِس ’’فطری حق‘‘ کا benifiecryکون ہے ، فائدہ کون اُٹھاتا ہے اور بے وقوف کون بنتا ہے۔مگر کیا کیجئے کہ یہ لفظ ’’فطری حق‘‘ کچھ اِس قدرجادوئی خوبیوں کا حامل ہے کہ اِس نے ہماری نصف سے زائد آبادی کی سوچنے اورسمجھنے کی ساری صلاحتیں سلب کر رکھی ہیں۔ہماری خواتین کو اپنے بنیادی حقوق کا علم ہو یا نہ ہو’’فطری حق‘‘ کا بخوبی علم ہے۔ سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ ناچنا کب سے ’’فطری حقوق‘‘ کی فہرست میں شامل ہوا۔میرے نزدیک ناچنا غالب ہونے کی نہیں بلکہ مغلوب ہونے کی کیفیت کا نام ہے۔غلبہ چاہے جذبات کا ہو یا جبر کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے بسی کا، دونوں صورتوں میں انسان مغلوب ہوچکے ہونے کی علامت کے طور پر ناچتا ہے۔مکمل سرنڈرکی حالت میں۔ اطاعت کی آخری منزل پر پہنچ کر۔
ہماری سماجیات میں بننے سنورنے کی طرح ناچنے کی ’’بنیادی ‘‘ ذمہ داری بھی عورت پرڈال دی گئی ہے۔معصوم لڑکیوں کے گِدے، دوشیزاؤں کی جھمر اور شادی بیاہ میں خواتین کا ناچ کر خوشی منانابظاہر اُن کے جسمانی خدو خال کی موزونیت کاباعث سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت میں یہ صدیوں کی اُس ریاضت کا تسلسل ہے کہ جب مدرسری نظامِ معاشرت کے زوال کے بعد مردانہ سماج نے عورت کو مفتوح فریق گردانتے ہوئے ’’ناچنے‘‘ پر لگا دیا۔رقص مغلوبیت کی مسافت کے دوسرے پڑاؤ میں غالب فریق کی دلجوئی کا اظہاریہ بن کر سامنے آیا۔اِس دلجوئی میں مغلوب فریق نے دلربائی کا تڑکہ لگا کر جہاں فتح مند کو اُلو بنا کر اپنا اُلو سیدھا کرنے کا ہنر سیکھاوہاں اُس کے غصے اور ناراضی سے ’’نمٹنے‘‘ کے لیے بھی مکمل اطاعت کا ہتھیار استعمال کیا کہ جس کا بہترین طریقہ ’’نچ کے یار منانے‘‘ کے سوا اور کون سا تھا۔ مغلوب چونکہ کمزور اور ہزیمت زدہ قرار پا چکا ہوتا ہے اِس لیے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سماج کے سنگھاسن کے طاقت ور تاجدار یعنی مرد کے حضور اپنی وفاداری اور اطاعت گذاری کے مظاہرے کے لیے ناچتا رہے گا۔چاہے وہ کسی بادشاہ کا دربار ہو کہ جس میں حسینائیں کورنش بجا لاتے ہوئے حالتِ رکوع میں مجرا کی ادائیگی کریں یا ہمارے آج کے کھیت کھلیان میں وحشت ٹپکاتے جثے والے ’’خوامخواہ ناراض‘‘ سلطان راہی کے گرد اپنے وجود کی نفی کی حد تک ’’ترلا‘‘ کرتی ہوئی کوئی انجمن ’’بھینسا ناچ‘‘ ناچے۔مجرا کرنا اپنے لغوی معنی میں حاکم کے روبرو سر نگوں کرتے ہوئے آداب بجا لانے کا تعظیمی عمل ہے کہ جس میں بدن کے دیگر نمایاں اعضاء کی جنبش کی آمیزش نے اسے بیک وقت اطاعت، تعظیم اور دلجوئی کا استعارہ بنا دیا۔رقص سے انکاراگرچہ بغاوت ٹھہرااور رقص پے اصرارحاکمیت کے نفاذکا ضابطہ قرار پایامگر جب یہی رقص اجتماعی جھمر میں منقلب ہوا تو مفتوحہ اقوام اور طبقات کی بیداری کی تحریک بنا۔
بادشاہت ہو یا حاکمیت،یہ کبھی ایک اکائی کا نام نہیں رہے۔ بلکہ چھوٹے چھوٹے حاکموں کے اشتمال سے وجود میں آتی رہی ہیں ۔یہ چھوٹے چھوٹے مضافاتی درباربنتے بگڑتے اور بستے اُجڑتے رہتے ہیں۔ہر حاکم کا محکوم چونکہ اُس سے طاقت اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوف کی ہتھکڑی سے بندھا ہوتا ہے اِس لیے جونہی کوئی حاکم کمزور پڑتا ہے اُس کے محکوم سب سے پہلے نجات کی ایسی راہ ڈھونڈنے میں جُت جاتے ہیں جو کسی اور حاکم کی بارگاہ کی طرف جا نکلتی ہے۔ وہاں بھی پھر وہی نمائشی اطاعت، تعظیم اور دلجوئی کے تمام تر مہربان حربے۔ کوئی بھی طاقت ور یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہوتا کہ طاقت خوف کو جنم دیتی ہے اور خوف غیر یقینی اور بے اعتباری کو۔مرد نے اپنی تصوراتی طاقت کے بل بوتے پراپنے آپ کو ’’سجنا‘‘ قرار دے کر عورت کو جسمانی طور پر محکوم تو کر لیا مگراُس کی ذہنی توانائیاں مردانہ حاکمیت کے لیے عذاب سے کم نہیں تھیں۔سو اِس محاذآرائی سے بچنے کے لیے حاکم سماج نے اُسے خوابوں کی دنیامیں دھکیل کرنہ صرف سجنے سنورنے پر لگا دیا بلکہ فراواں دلجوئی کے لیے اپنے اشاروں پر نچوانے لگا یہ کہہ کر کہ یہ اعضاء کی ایسی شاعری ہے جو عورت ہی کر سکتی ہے۔اب یہ بات الگ کہ عورت نے بھی صدیوں کی محکومی میں مرد کی طاقت کو غچہ دینے کے تمام گُر دریافت کر لیے اور یہ بھی جان لیا کہ حاکم کے پاس طاقت تو ہوتی ہے مگر عقل نہیں۔تو کیا لطف کہ طاقت کو عقل سے مات دی جائے، عیاری اور اشاروں پر ناچنے کا طعنہ ملا بھی تو کیا ہوا، مراعات تو دستیاب رہیں۔
اب رہی یہ بات کہ ہیجڑے ناچتے کیوں ہیں تو اِس کاجواب بظاہر یہی ہونا چاہئے کہ محض اپنی بقا کے لیے۔مگریہ جواب قطعی تشفی بخش نہیں کیونکہ وہ اپنی بقا کے لیے کوئی اور ذریعہ بھی تو اختیار کر سکتے تھے۔معاشرے نے جب اُن کا مردانہ نام قبول کر لیا تھا تو مردانہ روپ بنائے رکھنے میں کیا ہرج تھا۔ یہ کیا کہ زنانہ بہروپ بھرا، کمر مٹکائی، ہاتھ لچکائے اور تالی کی لئ اور ڈھولک کی تھاپ پر سرِ بازار ناچنا شروع کر دیا۔اتنا تو وہ بھی جانتے ہوں گے کہ عورتیں تو اِس معاشرے کا کمزور اور غیر محفوظ ترین طبقہ ہیں تو اِس تیسری صنف نے اپنا تحفظ طاقت ور کی بجائے کمزور اور استبداد زدہ صنف کے بہروپ اور اُسی سے وابستہ بناؤ سنگھار اور مردوں کو لبھانے کے رویے میں کیوں تلاش کیا۔اِس کا جواب بھی کوئی اتنا گنجلک نہیں۔بات اتنی سی ہے کہ کمزور اور محکوم ہمیشہ اپنی طاقت اپنے جیسے مفتوحین میں تلاش کرتے ہیں۔ایک دوسرے کا سہارا بن کر۔مگر طاقت اور گھمنڈ کبھی ایک جیسے طبقات کو اکٹھا نہیں ہونے دیتی۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ دو حاکم نما لوگ لمبی مسافت کی فلائٹ میں برابر کی نشستوں پر گھنٹوں ایک ساتھ بیٹھے رہنے کے باوجودآپس میں ایک جملہ بھی نہیں بولتے مگر اِس کے برعکس قطعی اجنبی گھرانوں کے ڈرائیور، خانسامے، مالی اور چوکیدار محض پانچ منٹ کی اتفاقیہ ملاقات میں بھی یوں شیر وشکر ہو چکے ہوتے ہیں کہ جیسے صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔
لہذاہیجڑوں نے بھی جان لیا کہ مردانہ سماج میں بے بسی اگر اپنی انتہاؤں کو چھونے لگے تو اُس کا علاج سر ٹکرانا نہیں بلکہ سر بچانا ہے۔انہوں نے دیکھا کہ مرد نے عورت کو عضوِ معطل بنائے رکھنے کے لیے اُسے بننے سنورنے پر لگا رکھا ہے تو انہوں نے بھی اِسی طور اپنے آپ کو عضوِ معطل بنا لیا اور چہرے پر رنگدار لیپا پوچی کرنے لگے۔ہیجڑوں نے سمجھ لیا کہ مردانہ سماج اُن سے بھی مکمل اطاعت کا تقاضا رکھتا ہے جس کا اظہار اُس کے اشاروں پر ناچنے کے سوا کچھ اور نہیں تو وہ بھی ناچنے لگے۔ننگے پاؤں ، خالی جھولی، خالی ہاتھ۔تمسخر، ہزیمت اور ذات کی نفی کی اذیت سے گذرنے کے باوجوداُنہوں نے طاقت ور کی جیب سے اپنے لیے پیٹ بھر روٹی نکال لینے کا ہنر بھی سیکھ لیا اور جبر کے ماحول میں غیر محفوظ نسوانی بہروپ کے ہوتے ہوئے بھی اپنی بقا کا اہتمام کر لیا ۔اگر ہم اِسی ہیجڑے پن کو عالمی تناظر میں دیکھیں تو عجب تماشہ دکھائی دیتا ہے۔ایک سے بڑھ کر ایک دستگیر عرف کترینہ، جمیل عرف کرینہ ، رشید عرف پریانکااور بشیر عرف پرنیتی چوپڑا جیسے ممالک عالمی سماج کی سپر پاور کے دروازے پر اپنے تئیں خوب بن سنور کرننگے پاؤں، ننگے سر خالی جھولی پھیلائے ٹھمکے لگائے چلے جا رہے ہیں کہ کبھی تو ’’ویل‘‘ ملے گی۔ مردانہ سماج کی مانند طاقت کے نشے میں چُور عالمی سامراج بھی شاید نہیں جانتا کہ اپنے وقت کے طاقت ور ترین سلطانِ دہلی علاؤالدین خلجی کے ساتھ اُس کے محبوب خواجہ سرا ملک کافور نے کیا سلوک کیا تھا۔مردانہ عملداری کو اِس حقیقت کا بھی ادراک نہیں کہ اُس کے اشاروں پر ناچنے والی اِس ہزیمت زدہ مخلوق میں کوئی ہیجڑہ الماس عرف بوبی بھی نکل آتا ہے۔مگر ہم پھر بھی یہی پوچھنے میں اپنے حاکمانہ گھمنڈ کا مزہ لیتے رہتے ہیں کہ ہیجڑہ آخر ناچتا کیوں ہے۔
فیس بک کمینٹ