میرا خیال ہے کہ ہماری نسل کے زندہ لوگوں کو کھلے دل سے تسلیم کرلینا چاہئے کہ
” سماجی روایات کی پاسداری’ علم دوستی’ اپنے چار اور کے لوگوں سے بلا امتیاز مذہب و مسلک اور قومیت محبت کرنا اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے موثر آواز بلند کرنے کے حوالے سے ہم اپنے بعد کی نسل کی تربیت و رہنمائی درست طور پر نہیں کر پائے”۔
شناخت کے بحران کا تو اس ملک میں معاملہ یا یوں کہیں المیہ قیام پاکستان کے دن سے ہی موجود ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اس سے بڑے بحران کھلے میدانوں کے ساتھ ہمارے سروں پر ناچ رہے ہیں۔ سیاسی عدم برداشت کی تاریخ کے اوراق الٹیں تو لمحہ بھر میں بٹوارے کے اُن سالوں میں جا کھڑے ہوں گے۔ جب آل انڈیا مسلم لیگ والے اپنے مخالف مسلمانوں پر کانگریس کے یار کی پھبتی کستے تھے اور بٹوارے کے مخالف لیگیوں کو نسلی ٹو ڈی قرار دیتے پھرتے تھے۔
پاکستان بن گیا تو لیگیوں نے غدار غدار کاشور مچانا شروع کردیا۔ پھر تنگ نظر مذہبی سیاسی جماعتیں’ شرک وکفر کے کُند فتوے لے آئیں۔وقت گزرنے کے ساتھ عدم برداشت بڑھتی گئی۔
ایوب خان صدارتی انتخاب لڑ رہے تھے کہ اسی انتخابی مہم کے دوران متحدہ حزب اختلاف کی مشترکہ صدارتی امیدوار محترمہ فاطمہ جناح بھارت کی ایجنٹ قرار دے دی گئیں۔ غداروں کی فہرست بڑی لمبی ہے محترمہ فاطمہ جناح’ خان عبدالغفار خان’ حسین شہید سہروردی’ جی ایم سید’ ذوالفقار علی بھٹو’ ایک وقت میں پوری کی پوری نیشنل عوامی پارٹی غدار ٹھہرائی گئی۔ پھر وقت بدلا پیپلز پارٹی بھارتی ایجنٹ کہلائی۔ تازہ تازہ بھارتی ایجنٹ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف قرار پائے۔ اب خیر سے ایک ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب اور دانش پر چاند ماری کرتے کچھ بوزنوں نے مولانا فضل الرحمن کو بھی بھارتی ایجنٹ کہنا بولنا شروع کردیا ہے۔
تمہید طویل ہوگئی۔ میں منگل کاسارا دن اور شب کا نصف حصہ اپنی بیٹی کے علاج(آپریشن) کے لئے ہسپتال میں رہا۔ درمیان میں وقفے وقفے سے سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس کو دیکھتا اور کڑھنے لگتا۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں اپنا بولا لکھا کہلوایا سامنے آتا ہے وہی صورتحال ہے۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں 2014ء میں پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ اپنے مالکان کی خوشنودی کے لئے پولیس اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس ایک کالعدم جماعت کے کارکنوں کے ذریعے ماڈل ٹاؤ ن لاہور میں منہاج القرآن پر حملہ آور ہوئے۔
اس المناک سانحہ میں دو خواتین سمیت 14افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ میڈیا لائیو کوریج دے رہا تھا اس لئے خواتین کو منہ ‘ سر اور گلے پر فائر مارنے والے پولیس اہلکاروں کے چہرے محفوظ ہوگئے۔ سب جانتے دیکھتے ہوئے بھی ہمارے لیگی دوست اور ان کے متوالے منہ بھر کے کہتے تھے یہ قتل عام پروفیسر طاہر القادری نے خود کروایا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے ایک سے زائد مواقع پر کہا کہ 14افراد کو ان نقاب پوشوں نے قتل کیا جو ایک ریاستی ادارے سے تعلق رکھتے تھے۔ دو ہزار گیارہ کے سال میں ہمارے یہاں پوری توانائی کے ساتھ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں کی سیاست و صحافت لوٹ آئی یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ہم سیاسی مخالفین کی ماؤ ں’ بہنوں اور بیٹیوں کا فخر کے ساتھ مذاق اڑاتے منہ بھر کے گالیاں دیتے اور ان پر بازاری الزامات لگاتے ہیں۔
ویسے تو اس نیک کام کی ابتداء نون لیگ نے کی تھی مگر اب اس میں تحریک انصاف کے حامی خاصے خود کفیل ہیں۔ بد قسمتی سے ان خرافات میں چند وہ
”دانش ور صحافی” بھی پیش پیش ہیں جو ایک ادارے کے ذریعے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں چھاتہ برداروں کے طورپر اتارے گئے یا جن کے بچوں کا دودھ نواز شریف کی حکومت پی جاتی تھی۔
ہم بیماریوں’ سیاسی روایات’ اخلاقی اقدار’ علم دوستی کو جوتے مارتی مخلوق کے درمیان جی رہے ہیں۔ سچ پوچھئے تو جی نہیں رہے بلکہ جینے پر مجبور ہیں کیونکہ متبادل آپشن نہیں ہے۔ دو ہزار چھ میں میرے پاس امریکی شہریت کا متبادل آپشن تھا لیکن والدین اور اساتذہ کی تربیت اور زمین زادہ ہونے کا حق ادا کرنے کے جذبوں نے اس آپشن کو استعمال کرنے سے روک دیا۔ اب اپنے چار اور کے ماحول اور موجود گھٹن کو دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے اور گاہے یہ افسوس بھی کہ اس وقت ملک چھوڑ کر چلا کیوں نہیں گیا۔
ایک عجیب و غریب مخلوق کا سامنا ہے جو کسی کی عزت کرنے کی روادار نہیں ایسی مخلوق جس کے بارے میں فقیر راحموں کہتے ہیں کہ” وہ بد تمیزی و بد مزاجی کی معراج پر کھڑی ہے کچھ تو ایسے ہیں جو والدین کی بیماری کو ڈرامہ قرار دیتے ہیں۔ جو اپنے والدین کیلئے غیر انسانی رویہ رکھتے ہوں وہ کسی کو کیا نہیں کہہ سکتے یہ سب ہم سن پڑھ رہے ہیں”۔
دکھ یہ ہے کہ اس بگاڑ کو ہوا دینے والوں میں وہ سیاسی مسافر بھی پیش پیش ہیں جو کل تک آج کی حکمران قیادت کیلئے اس طرح کے منفی خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ مثال کے طور پر میاں نواز شریف نے منگل کی صبح تین سادہ سلائس اور ایک کپ چائے کیساتھ دو ابلے انڈوں کی سفیدی کھائی۔ دوپہر کے کھانے میں انہوں نے ڈیڑھ روٹی سبزی کیساتھ لیکن وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات نے اس حوالے سے جن ارشادات عالیہ کاملہ و بنی گالیہ سے نوازا وہ آپ سن پڑھ چکے۔
رونا آتا ہے کس قسم کی مخلوق کیساتھ جینا پڑ رہا ہے۔ابتدائی سطور میں جو عرض کیا تھا اس کی وضاحت کیئے دیتا ہوں۔ کم از کم میں ان بدحواسیوں’ بد زبانیوں اور بے لگامیوں کے ذمہ دار دو پوری نسلوں کو سمجھتا ہوں ان میں والدین’ اساتذہ’ اہل صحافت و ادب۔ سیاسی کارکنان ان کے مالکان اور سب سے بڑھ کر ریاست بھی شامل ہے۔ اس اخلاقی تہذیبی اور سماجی شعور کے زوال پر اب صرف رویا ہی جاسکتا ہے۔ سچ ہی کہا ہے کسی نے کہ "جتنی دیر میں جھوٹ و بدزبانی کرہ ارض کے گرد دو چکر لگالیتے ہیں تہذیب نفس اور اخلاقیات اتنی دیر میں گھٹنے پکڑکر کھڑے بھی نہیں ہوپاتے”۔دست بدستہ گزارش ہے خدا کیلئے ان منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کیجئے ورنہ کل کلاں آپ کے گریبان اور خاندان بھی ان کی زد میں آئیں گے۔
(بشکریہ :روزنامہ مشرق پشاور )