جناب عثمان بزدار کی پنجاب حکومت پہلا سال مکمل کرکے دوسرے سال میں قدم رنجہ فرما چکی۔ پچھلے ایک سال میں پنجاب حکومت کی ”شاندار کارکردگیوں“ کا شمار بہت مشکل ہے ایک آدھ کالم میں ان ” کامیابیوں“ کا تذکرہ ممکن نہیں ہوسکتا دفتر کے دفتر درکار ہوں گے اس کےلیے۔
کہنے کو جناب عثمان بزدار ہی پنجاب کے ” وسیم اکرم پلس“ وزیر اعلیٰ ہیں‘ خود انہوں نے متعدد مواقع پر یہ یقین دلانے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ لاہور میں ”شہباز شریف“ لگے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود کوئی اچھا اور عوام دوست تاثر نہیں ابھر پایا۔ مہنگائی کاجن بوتل میں بند کرنے میں ان کی حکومت ناکام رہی ہے ، بجا کہ مہنگائی کا سیلاب پٹرولیم‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے سیلاب بلا میں تبدیل ہوا کوئی صوبائی حکومت وفاق کے تعاون کے بغیر تنہا اس حوالے سے کچھ نہیں کرسکتی۔ لیکن یہ تاثر بھی ہے کہ عمران خان کے اس دلنشیں انتخاب کو شاید ابھی تک اپنے وزیر اعلیٰ ہونے کا یقین نہیں آیا۔
پنجاب میں طاقت و اختیارات کا مرکز وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل‘ گورنر چودھری سرور یا بیورو کریسی کا وہ "نابغہ” جو اپنے دفتر میں ہر ملاقاتی کو یہ تاثر دیتا ہے
” اس شودے ملتانی نوں کی پتہ حکومت کنج کرنی وے“۔
بیورو کریسی کے ان نابغوں کا حال یہ ہے کہ وہ پنجاب میں فنی تعلیم خصوصاً میڈیکل کالجوں کے تعلیمی معیار کا بیڑا غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر فرید ظفر کو سپریم کورٹ کے حکم پر وی سی فیصل آباد یونیورسٹی کے منصب سے ہٹایاگیا اور پھر نابغوں نے اسے امیر الدین میڈیکل کالج لاہور کا پرنسپل لگوا دیا۔ یہ اپنا ذاتی میڈیکل کالج بھی رکھتے ہیں‘
چیف سیکرٹری پنجاب نے جو 60سال سے تجاوز کرچکے ڈاکٹر طارق محمود کو سیالکوٹ کے خواجہ صفدر میڈیکل کالج کا پرنسپل لگا دیا اور تقرری کے حکم نامے میں لکھ دیا کہ
"یہ تقرری گورنر پنجاب کے حکم پر کی گئی ہے”۔
سپریم کورٹ کے حکم پر جعلی ڈگری کی وجہ سے کمرہ عدالت میں استعفیٰ لکھ کر وی سی نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کا منصب چھوڑنے والے ڈاکٹر ظفر تنویر کو شیخ زید میڈیکل کالج کا پرنسپل لگا دیا گیا۔ موصوف جب ساہیوال میڈیکل کالج کے پرنسپل تھے تو انہوں نے اپنی دو صاحبزادیوں اور صاحبزادے کو کالج میں ملازمت دے دی۔ تینوں بچے ایک دن بھی کالج میں ڈیوٹی پر حاضر ہوئے بغیر اٹھارہ ماہ تنخواہیں وصول کرتے رہے۔
ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر اپنے دوست اور گورنر کے نام پر بیورو کریسی کا ناطقہ بند کرنے والے پی اے ٹو گورنر وسیم رامے کے ذریعے اظہر جعفری اور شاہد نذیر میں سے کسی ایک کو ڈی ایچ کیو تربیتی ہسپتال ساہیوال کاایم ایس لگوانا چاہتے ہیں۔ شاہد نذیر 2016ءاور 2019ءمیں کرپشن کے الزام میں ایم ایس کے منصب سے ہٹائے گئے جبکہ اظہر جعفری پر بھی سنگین الزامات ہیں ہردو تقرریوں کے لئے ڈی سی ساہیوال کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے تین دوستوں نعیم گیلانی (میڈیکل ریپ) عمران غزالی (پی ٹی آئی کے رہنما) اور بابر صغیر( ایک این جی او چلاتے ہیں) کے ذریعے سرکاری افسروں کے خلاف وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو درخواستیں دلواتے ہیں اور پھر خود کو انکوائری افسر بنا لیتے ہیں۔ چونکہ موصوف پنجاب حکومت کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کے ”خصوصی دوست“ ہیں اس لیے اٹھتے بیٹھتے یہ تاثر دیتے ہیں "اس شودے ملتانی بزردار نوں کی پتہ حکومت کیسے چلاتے ہیں سارا کام تو مجھے اور شہباز گل کو دیکھنا پڑتا ہے”۔
خود جناب ڈاکٹر شہباز گل کی ذات پر کئی سوالات ہیں مثلاً ایک یہ کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ کے انکار کے باوجود سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ایک کار خاص شیخ امین کی اہلیہ کو کنٹریکٹ کی مدت ختم ہونے پر دوبارہ خاتون مستحب پنجاب لگوا دیا‘ کیا ایک ترجمان پنجاب حکومت ایک پی اے ٹو گورنر اور ایک ڈپٹی کمشنر اتنے طاقتور ہیں کہ پنجاب حکومت کا نظام ان کا پانی بھرتا ہے؟۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کو شودا ملتانی کہنے والے بیورو کریٹ کے خلاف وزیر اعلیٰ کو شکایت ہوئی تو انہوں نے ڈاکٹر شہباز گل سے کہا
” ڈاکٹر صاحب اس کا نوٹس لیں“
نوٹس لیا گیا اور راوی نے چین لکھ دیا۔ اختیارات سے تجاوز اور قوانین کو روندنے کے ایک دو نہیں متعدد واقعات لکھے جاسکتے ہیں مگر ہمارا بنیادی سوال یہ ہے کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ اصل میں ہے کون؟۔
ڈاکٹر شہباز گل اس وقت پنجاب کی سب سے طاقتور ترین شخصیت ہیں کہنے کو وہ پنجاب حکومت کے ترجمان ہیں مگر حقیقت حال یہ ہے کہ پنجاب میں سارے راستے ان کے دفتر کی طرف جاتے ہیں۔
بیورو کریسی ان کے موڈ کو خوشگوار رکھنے اور تابعداری کا ریکارڈ بنانے میں مصروف ہے وزیر اعلیٰ کی طرف جانے والی ہر فائل اور کاغذ ان کے دفتر سے ہو کر آگے بڑھنے کی سعادت پاتا ہے ۔ اس طرح وزیر اعلیٰ کا ہر تحریری حکم ان کے دربار میں پیش کیاجاتا ہے۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ ڈاکٹر شہباز گل اور ان کے دو رتن اولاً پی اے ٹو گورنر وسیم رامے اور ثانیاً ایک ڈپٹی کمشنر نظام ہائے تخت پنجاب چلا رہے ہیں۔
لاریب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار شریف آدمی ہیں دھیمے مزاج اور روایتی وضع داری کے حامل لیکن وہ سال بھر سے جس منصب پر فائز ہیں اور ان کی ناک کے نیچے جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ملبہ بہر طور ان پر ہی پڑے گا۔
وہ اپنی شرافت اور وضع داری کو ایک طرف رکھ کر ” اگرکسی دن صرف اس بات کاجائزہ لے لیں کہ پنجاب حکومت کے 39 ترجمانوں 3 کوارڈی نیٹرز اور ایک چیف ترجمان کے علاوہ دو بیورو کریٹ صوبے میں کیا گل کھلاتے پھر رہے ہیں اور کیسے ڈاکٹروں کو اپنے دفاتر میں طلب کرکے ایک دو مخصوص ادویہ ساز اداروں کی ادویات مریضوں کو لکھ کر دینے کا نادر شاہی حکم دیا جا رہا ہے تو ان کے مزاج کی شگفتگی دور ہوجائے گی۔ تازہ واردات یہ ہوئی کہ وزیر اعلیٰ سے پنجاب میں نئی ملازمتوں پر تقرریوں اور ملازمین کے تبادلوں پر پابندی کاحکم جاری کروالیاگیا۔ اب نئی تقرری‘ ٹرانسفر اور پوسٹنگ وزیر اعلیٰ کے حکم سے مشروط ہے۔وزیر اعلیٰ اگر کھلی آنکھوں سے پچھلے چند دنوں کے دوران تبادلوں اور تعیناتیوں کے حوالے سے کی جانے والی سفارشوں کا ہی بغور جائزہ لیں تو ان پر سارا کھیل واضح ہو جائے گا۔تونسہ کے دور افتادہ علاقہ سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ اگر اپنے منصب کے تقاضے خود پورے نہیں کریں گے تو پنجاب حکومت کی نکیل ڈاکٹر شہباز گل کے ہاتھ میں ہی رہے گی اور نام جناب بزدار کا ہی بدنام ہوگا۔
( بشکریہ : روزنامہ مشرق پشاور )