ہر کسی نے اپنی اپنی مَیں کا سیاپا ڈال رکھا ہے۔ میں ہی سب کچھ ہوں۔ میں نہیں تو کچھ نہیں۔ حق گوئی مجھ پر ختم ہو چکی۔ باقی سب جھوٹ بکتے ہیں۔ ملک و قوم کا درد بھی صرف میں سمجھتا ہوں۔ باقی سب فراڈ ہے۔ میں کسی کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آ جائوں تو ٹھیک، کوئی دوسرا انہی کندھوں پر چڑھ کر مجھے اقتدار سے باہر کر دے تو وہ جمہوریت کا دشمن ہے۔ میں این آر او کروں تو ٹھیک، کوئی دوسرا این آر او کر لے تو وہ ابن الوقت، مفاد پرست اور چاپلوس ہے۔ ہر طرف میں میں کا شور ہے۔ ایک کہتا ہے ڈالر مہنگا ہو گیا، اسٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی کیونکہ میں حکومت میں نہیں۔ دوسرا کہتا ہے ڈالر کے مہنگا ہونے پر گھبرانا نہیں کیونکہ میں حکومت میں ہوں، تھوڑا صبر کرو میں سب ٹھیک کر دونگا۔ میں میں کی اس لڑائی میں مرغی اور انڈے کو بھی ایک مذاق بنا دیا گیا ہے۔ مرغی اور انڈے کا ذکر گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان کی تقریر میں آیا تھا جس میں اُنہوں نے اپنی حکومت کے پہلے سو دن کی کارکردگی پیش کی اور اگلے پانچ سال کا وژن دیا۔ اس تقریر میں انہوں نے کہا کہ ہم غریب لوگوں کو دیسی مرغیاں پالنے کی ترغیب دینگے تاکہ وہ مرغیاں اور انڈے بیچ کر اپنی غربت دور کریں تو مجھے ایسا لگا کہ یہ بات تو پہلے بھی کہیں سنی تھی۔ ذہن پر بہت زور دیا کہ یہ بات کہاں سنی تھی لیکن یاد نہیں آیا۔ وزیراعظم نے مرغی اور انڈوں کے بعد کٹوں، بھینسوں اور مچھلیوں کی بات شروع کر دی اُنکے سامنے بیٹھی ہوئی تحریک انصاف کی خواتین اراکین قومی اسمبلی نے مسکرانا شروع کر دیا کیونکہ مرغیوں اور انڈوں کی بات ان کیلئے نئی تھی شاید اسلئے کہ ان میں سے اکثر کا تعلق شہری علاقوں سے ہے۔ حکومت کے سو دن کی کارکردگی کو اُجاگر کرنے کیلئے اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں سجائی گئی محفل ضرورت سے زیادہ لمبی تھی۔ یہاں نظر آنیوالی بدنظمی اور افراتفری سو دن میں کئے گئے کچھ اچھے کاموں کو پس منظر میں دھکیل رہی تھی۔ وزیراعظم صاحب بار بار کرپشن ختم کرنے کے دعوے کر رہے تھے انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ یہ دعوے جس کنونشن سینٹر میں کر رہے تھے یہ کنونشن سینٹر پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں بنایا گیا اور اس کی تعمیر میں ہونے والی مبینہ ہیرا پھیری پر پیپلز پارٹی کے کچھ رہنمائوں کو مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جناح کنونشن سینٹر میں وزیراعظم عمران خان کی اس تاریخی تقریر کے فوراً بعد حکومت کے ایک وزیر نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مار کر مجھے کہا۔ ’’کپتان نے حمزہ شہباز کا پولٹری بزنس فلاپ کرنے کا منصوبہ پیش کر دیا ہے۔ یہ دعویٰ میرے لئے حیرت کا باعث تھا۔ میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تو وزیر صاحب نے میری حیرانی دور کرنے کے لئے کہا آپ تو جانتے ہیں حمزہ شہباز پنجاب کا پولٹری کنگ ہے۔ پنجاب میں برائلر مرغی کے گوشت کی قیمت پر حمزہ شہباز کا کنٹرول ہے لیکن کپتان نے برائلر مرغی کے مقابلے میں دیسی مرغیاں پھیلانے کا منصوبہ پیش کر دیا ہے، اب پنجاب میں دیسی مرغیاں اور دیسی انڈے کھائے جائینگے اور حمزہ شہباز کی برائلر مرغی کی مانگ ختم ہو جائیگی۔ یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی اور بندہ ناچیز نے وزیر صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ لوگوں کو مرغیاں اور کٹے پال کر غربت دور کرنے کی ترغیب دینا کوئی بُری چیز نہیں بہت اچھی چیز ہے لیکن اس کا مقصد غربت دور کرنا ہونا چاہئے حمزہ شہباز کا بزنس ختم کرنا نہیں۔ ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ لاہور سے ایک بیورو کریٹ نے واٹس ایپ پر کال کی اور بتایا کہ آج وزیراعظم عمران خان نے مرغیاں اور کٹے پالنے کے جس وژن کا اعلان کیا ہے یہ دراصل شہباز شریف کا وژن ہے۔ شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے مویشی اور مرغیاں پالنے کے منصوبوں پر کروڑوں روپے خرچ کئے تھے اور عمران خان نے شہباز شریف کے ان منصوبوں کو اپنا بنا کر پیش کر دیا ہے۔ میرے بیورو کریٹ دوست کے لب و لہجے میں شدید غصہ نمایاں تھا اور وہ سرکاری افسر سے زیادہ مسلم لیگ (ن) کا ہمدرد بن کر گفتگو کر رہا تھا۔ نجانے کیوں مجھے مذاق کی سوجھی اور اس گستاخ نے اپنے بیورو کریٹ دوست کی خدمت میں عرض کیا کہ جس طرح شہباز شریف اپنی مرغیاں اور کٹے پال اسکیموں کے ذریعے پنجاب میں غربت ختم نہ کر سکے تو کیا عمران خان بھی ان اسکیموں کے ذریعہ غربت ختم نہ کر پائیں گے؟ میرے بیورو کریٹ دوست نے کھسیانے انداز میں ایک نمائشی قہقہہ لگایا اور فوراً ہی اجازت طلب کر لی۔
اب مجھے یاد آ گیا کہ شہباز شریف نے مرغیاں پالنے کی اسکیم کا آغاز 2016ءمیں کیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت پنجاب کے سرکاری گرلز اسکولوں کی بچیوں کو چار مرغیاں اور ایک مرغا دینے کا اعلان کیا گیا ساتھ میں ایک ڈربہ بنانے اور مرغیوں کی فیڈ کیلئے ماہانہ رقم بھی دی گئی۔ لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے پنجاب کے ایک ہزار گرلز اسکولوں میں اس اسکیم کا آغاز کیاتو ڈاکٹر فرزانہ باری سمیت کئی پڑھی لکھی خواتین نے اعتراض کیا کہ پنجاب حکومت اسکولوں کی بچیوں کو تعلیم پر توجہ دینے کی بجائے مرغیاں پالنے پر لگا رہی ہے تاکہ وہ گھر کے اندر مصروف رہیں گھر سے باہر نہ نکلیں۔ جب یہ بحث شروع ہوئی تو اس اسکیم کے حامیوں نے بل گیٹس فاؤنڈیشن کا ذکر کیا جس نے افریقہ کے کئی ممالک میں غربت کم کرنے کے لئے مرغیاں بانٹی تھیں اس سے قبل شہباز شریف پنجاب میں مویشی پال اسکیم کے تحت غریب لوگوں میں بھینسیں اور کٹے بھی تقسیم کر چکے تھے لیکن بعد میں ان کی توجہ اورنج لائن ٹرین جیسے بڑے منصوبوں پر مرکوز ہو گئی اور 2018ء کی انتخابی مہم میں انہوں نے اپنی مرغی اور کٹا پال اسکیموں کا ذکر نہیں کیا تاہم اخبارات کی فائلوں میں وہ اشتہار آج بھی تلاش کئے جا سکتے ہیں جو کچھ سال پہلے پنجاب حکومت نے مرغیاں اور کٹے پالنے کیلئے دیئے تھے۔ تو جناب! عمران خان نے اپنی تقریر میں مرغیوں اور کٹوں کے بارے میں جو کچھ بھی کہا وہ نیا نہیں تھا بلکہ وہی تھا جو پہلے شہباز شریف کرتے رہے لیکن مسلم لیگ (ن) نے اس کا کریڈٹ لینے کی بجائے عمران خان کو مرغیوں اور انڈوں کے طعنے دینا شروع کر دیئے۔ طعنے بازی کے اس کھیل میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہو گئی حالانکہ خود آصف علی زرداری کو بھی مرغیاں، بکریاں، بھینسیں، اونٹ اورگھوڑے پالنے کا شوق ہے۔ عمران خان نے مرغیوں اور انڈوں کا جو وژن پیش کیا وہ بہت زبردست ہے لیکن یہ دراصل شہباز شریف کا وژن ہے، مَیں مَیں کے سیاپے میں مسلم لیگ (ن) نے اپنے ہی لیڈر کے وژن کو بھی مذاق بنا دیا۔ اس سیاپے پرپریشان ہونے کی بجائے اسے انجوائے کریں کیونکہ انجوائے کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ