سال دو ہزار گیارہ عیسوی میں ہم نے ’’ ارضِ ملتان ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا ۔ حنیف چودھری صاحب ان دنوں وہاڑی میں تھے ۔ رسالہ موصول ہونے پر انہوں نے یہ خط ارسال کیا اور اس میں بچوں کے لیے ایک سو روپے بھی بھیجے ۔۔آج یہ محبت بھرا خط آپ کی نذر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رضی بیٹے جیتے رہو
’’ ارض ملتان‘‘ دیکھ کر پہلے تو خوشی ہوئی کہ تم نے اپنے شہر کی قدامت کی تلاش میں وہ کام کیا جو محکمہ آ ثار قدیمہ نے کرنا تھا ، دکھ اس لیے ہوا کہ تم نے 20 ہزار روپے کی لاگت سے لاگت جو اس کتابچے پر خرچ کی ہے وہ تم نے اپنی بچوں کا پیٹ کاٹ کر لگائی ہے مجھے یقین ہے کہ تم کو ایسا کرنے پر بیٹے شاکر نے اکسایا ہوگا ۔
میرا تم دونوں کو پرخلوص مشورہ ہے کہ تم مل کر سیاست میں حصہ لینا شروع کر دو فائدے میں رہو گے ادب اور تحقیق میں کیا رکھا ہے یہ دونوں چیزیں ادیبوں شاعروں کا کباڑا کر دیتی ہیں منٹو کا حشر نہیں دیکھا تم نے۔ اس کی اولاد کو سوائے ناموری کے اور کیا ملا ؟ ناصر کاظمی کی عاقبت دیکھی فٹ پاتھ پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر چل بسا اس کی اولاد فاقوں مری ۔ راجندر سنگھ بیدی اپنی کھولی میں مردہ پایا گیا کسی نے پوچھا تک نہیں ۔ان باتوں سے عبرت پکڑو شاکر تمہیں مروا دے گا ۔
سیاست دان بنو اس میں دھن ہی دھن ہے۔ دولت ہی دولت ہے ۔ زبان چلنی چاہیے پھر دیکھو تمہاری ناموری کیسے ہوتی ہے ۔ بی بی بے توقیر کے جوتے پالش کرنے والے اب دولت میں کھیل رہے ہیں۔ سیاست میں انسان جتنا جھوٹ بول سکتا ہے بولے ۔ جتنا کفر تول سکتا ہے تولے ۔ سب سچ ہوتا ہے ۔ وہاں پیسوں کا محتاج نہیں ہونا پڑتا نہ اپنے بچوں کا پیٹ کاٹنا پڑتا ہے ۔ پھر اس میں دماغ بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا بچوں کی فکر نہ کرائے کی ادائیگی کا خدشہ۔۔ فنڈز خود بخود چلے آ تے ہیں کبھی گلیوں کی مرمت کا فنڈ اور کبھی نکاسی آب کی گرانٹ ۔ میاں میری مانو۔ دونوں بھائی مل کر کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جاؤ ورنہ تم دونوں کا حشر پیسہ اخبار کے ایڈیٹر جیسا ہوگا۔
اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کرو ان کا پیٹ نہ کاٹو ۔ جس نے بھی ادب کی بیڑی میں قدم رکھا وہی ڈوبا جس نے سیاست میں پاؤں رکھا وہ تر گیا۔ آج کل سیاستدانوں کو آ پ جیسے انتھک کارکنوں کی ضرورت ہے میں تو بے وقوف تھا جو ادب کی گھوڑی پر چڑھ بیٹھا۔ آ خر ڈبو ہی دیا نا اس نے ۔
مگر مجھے یقین ہے کہ شاکر تم کو ادھر نہیں آنے دے گا ۔ اس کو ادب کی چاٹ پڑی ہوئی ہے کتابیں چھاپ رہا ہے اور لوگوں کے شیلف بھر رہا ہے ایک دن میری باتیں تمہیں ضرور یاد آ ئیں گی ۔
رضی تمہارے بچوں کے لیے 100 روپے بھیج رہا ہوں احقر حنیف چودھری
10.12.11
فیس بک کمینٹ