یہ 1969 کے دسمبر یا 1970 کے جنوری کی بات ہے کہ مجھے امروز ملتان میں بطور سب ایڈیٹر(آپرینٹس) کام کرنے کا موقع مسعود اشعر مرحوم نے دیا ، شفٹ انچارج سلطان سید تھے ، بیشتر لوگوں سے میرا تعارف تھا کہ میں پہلے طالب علموں کے صفحے پر لکھتے ہوئے اور پھر ادبی محفلوں کے کالم نگار کے طور پر ان سے شناسا تھا ، ڈاڑھی مونچھ کے بغیر ایک سانولے سلونے پروف ریڈر کے طور کام کرنے والے حنیف چودھری نے مجھے کہا ” آپ نوجوان ہیں مہینے دو مہینے بعد آپ کا ایم اے کا رزلٹ آنے والا ہے ، میٹرک سے بی اے تک آپ نے فرسٹ ڈویژن پائی ہے ایم اے بھی اسی درجے میں ہوا تو لیکچرار ہو جائیں گے ہم جیسے پرانے کارکنوں کی ترقی کی راہ میں کیوں رکاوٹ بنتے ہیں ؟
مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ پروف ریڈر کے بعد سب ایڈیٹر بنایا جائے گا ” میری ادبی محفلوں میں چودھری صاحب سے شناسائی تھی جو ان سے قربت میں بدلتی گئی انہوں نے نوشابہ نرگس سمیت اپنے بعض رفقا سے ” گواہیاں ” دلوائیں کہ یہ جو آپ ایک ضرورت مند نوجوان کی طرح توقع رکھتے ہیں کہ پہلی تاریخ پر پانچ سو روپے آپ کو تنخواہ مل جائے گی تو منہ دھو رکھئے ، نئے آنے والے سے ترجمے ، فیچر ، مکتوبات کی اصلاح کا کام خوب لیا جاتا ہے مگر مسعود اشعر صاحب مقامی مدیر ہیں اصل مدیر امروز لاہور کے ظہیر بابر ہیں دو تین ماہ بعد آئیں گے آپ کا ٹیسٹ اور انٹرویو ہوگا پھر تقرر ہو گا کہیں چھ ماہ بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ تربیت کا زمانہ تھا اعزازی کام کیا سو اس کی تنخواہ نہیں ملے گی: ، سو یہ حنیف چودھری مرحوم کی” معصومانہ مہم ” تھی کہ چھ سات ہفتے ڈیسک پر کام کرکے میں مستعفی ہو گیا ۔
پھر کم و بیش سات برسوں کے بعد جب میں ایمرسن کالج میں لیکچرار تھا اور عرش صدیقی مرحوم کے گھر کے ایک حصے میں کرایہ دار کے طور پر رہتا تھا میری حنیف چودھری صاحب سے تفصیلی ملاقات ہوئی معلوم ہوا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی کے نوزائیدہ شعبہ پنجابی میں ڈاکٹریٹ کے لئے "پنجابی نکی کہانی” کے موضوع پر عرش صاحب کی نگرانی میں خاکہ ، کتابیات بنا رہے ہیں ، تب ملتان یونیورسٹی ستمبر 1975 میں قائم ہوگئی تھی مگر تدریس یا تحقیق کے معاملات میں فعال نہیں ہوئی تھی ۔افسانے سے مجھے دلچسپی رہی ہے سو کچھ مشورے میں نے بھی دیئے اور پھر ہمارے مابین ملاقاتوں میں یہی مستقل موضوع رہا ۔ مجھے معلوم ہوا کہ چودھری صاحب کی پنجابی کہانیاں بھارتی پنجاب کے جرائد میں شائع ہوتی ہیں پٹیالہ اور چندی گڑھ کی جامعات کے نصاب میں شامل ہیں اور وہ گورمکھی رسم الخط کی پنجابی کو پڑھ لیتے ہیں تب بھی وہ امروز میں پروف ریڈر تھے شاید ان کی صحافیانہ صلاحیت یااستعداد پر مسعود صاحب کو بھروسہ نہیں تھا کہ اب انہوں نے مرزا ابن حنیف کو سب ایڈیٹر رکھ لیا ۔ضیا الحق دور میں امروز مزاحمت کا نشان بن گیا اور ہمیں اس دفتر سے وابستہ ہر فرد کے گرد رومان کا ہالہ دکھائی دیتا تھا پھر امروز ملتان بند ہوگیا جب ہماری یونیورسٹی نے سرائیکی ریسرچ سنٹر بنایا اور وائس چانسلر ڈاکٹر غلام مصطفی چودھری نے کہا کہ آٹھ سے دس ہزار روپے ماہانہ پر تین چار ریسرچ سکالر رکھو ترجمے ، تاریخ اور لغت کا کام کرو اور ایک اچھا کتاب خانہ بناو تو میں امروز مرحوم کے تین بے روزگار اہل علم کو اعزازئیے پر لے آیا مرزا ابن حنیف ، شبیر حسن اختر اور حنیف چودھری ۔
میں نے چودھری صاحب سے کہا کہ وہ بھارتی پنجاب میں خواجہ غلام فرید پر گورمکھی میں ہونے والے کام کا ترجمہ کریں ، بابا فرید کے اشلوکوں میں پنجابی سرائیکی مشترک اجزا کی نشاندہی کریں ملتان کے پرانے پرنٹنگ پریس کی باقیات کی فہرست سازی کریں اور سنٹر کے کتاب خانے کی دیکھ بھال کریں اور وہ انہوں نے دل جمعی سے کیا ۔ جون 2007 میں میں ریٹائر ہوکر جی سی یو فیصل آباد سے وابستہ ہوا تو افضل احسن رندھاوا اور فخر زماں کے مشورے سے انہیں اس یونیورسٹی میں پنجابی کی جز وقتی تدریس پر مامور کیا اس دوران معلوم ہوا کہ پنجابی زبان میں ان کی پی ایچ ڈی کی رجسٹریشن پنجاب یونیورسٹی نے منسوخ کردی سو میں انہیں کہتا رہا کہ چودھری صاحب آپ کو اپنی زندگی کے اس نامکمل باب کو پورا کرنا ہے اس لئے مجھے یہ فخر ہے کہ چودھری صاحب نے 90 برس کی عمر میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پاکستانی زبانوں کے شعبے سے پنجابی میں پی ایچ ڈی کے مقالے کا کامیابی سے مجلسی دفاع کیا تو اسلام آباد سے سب سے پہلا فون مجھے کیا ۔آج جب انہیں لحد میں اترے دوسرا دن ہے مجھے امید ہے کہ انہوں نے نکیرین کے سوالات کا جواب پنجابی میں ہی دیا ہو گا اور ہم سب کو بھی حوصلہ دیا ہے کہ قبر میں جا کے بھی مادری زبان میں زندگی بھر کیا کیا ، کیا اچھا کیا کیا اچھا نہ کر سکے وغیرہ کا حساب اپنی مادری یا سہولت کی زبان میں پیش کریں
فیس بک کمینٹ