جب سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تو اِس میں یہ بات شامل تھی کہ پاکستان بھر کے مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی۔ چونکہ اس وقت لوہا گرم تھا لہٰذا مدارس نے کاغذوں میں تو اس بات کی تائید کی لیکن اِس کے بعد اس معاملے پر مدارس کی جانب سے سست روی کی وجہ سے کوئی کام نہیں ہوسکا۔ اکثر مدارس نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ جن مدارس نے ڈیٹا فراہم کیا، وہ نامکمل تھا۔مدارس کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن صدقات خیرات وغیرہ ہوتے ہیں اور حقیقت پوچھیں تو چونکہ کوئی رسید وغیرہ تو جاری نہیں ہوتی یا ہر ٹرانزیکشن کا ریکارڈ نہیں ہوتا، تو ان کا کوئی حساب ہی نہیں ہوتا ۔ یہ ڈیٹا بھی جمع کروائے گئے ڈیٹا میں سے غائب تھا۔ آسان الفاظ میں اس وقت کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔مدارس پر بہت بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ یہ ذمے داری اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں سے زیادہ ہے۔ یہ اللہ اور رسول کے نام پر کام کرتے ہیں اور عوام سمجھتے ہیں کہ اِن کی وجہ سے معاشرے کو استحکام ملے گا۔ لیکن کیا ایسا آج تک ہوا ہے؟ ہرگز نہیں۔ الٹا اس معاشرے کا نقصان ہوا ہے، کیونکہ جس مقصد کو لے کر یہ مدارس بنتے ہیں، وہ یہ مقصد پورا نہیں کرتے بلکہ حقیقت میں مدارس ہر فرقے اور مسلک کا بزنس ماڈل بن چکے ہیں۔ شاید ان کے منتظمین آخرت کو ہی بھول چکے ہیں۔اب فوج یہ چاہتی ہے کہ سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر پاکستان بھر کے مدارس کو رجسٹرڈ کیا جائے، اِن کے نصاب کو اپ گریڈ کیا جائے اور اس میں عصری مضامین کو شامل کیا جائے۔ پاکستان کے مدارس پر ایک الزام جو تواتر سے لگتا ہے کہ یہ انتہا پسندی کی نرسریاں ہیں۔ یہ الزام کوئی ایسا غلط بھی نہیں۔ ان ہی مدارس سے بہت سے دہشت گرد گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ ان کے مدارس کا نام دہشت گرد سرگرمیوں کی فنڈنگ وغیرہ میں بھی سامنے آیا ہے۔ اب جبکہ اِن کا نصاب اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے اور اِنہیں محکمہ تعلیم کے زیر انتظام دیا جارہا ہے تو یہ میری رائے میں بالکل درست قدم ہے۔ بتایا گیا کہ اس مقصد کےلیے 2 ارب روپے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ تصویر کو درست زاویے سے دیکھیں تو یہ 2 ارب روپے بڑے مقصد کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ان مدارس میں اکثریت ان طلبا و طالبات کی ہوتی ہے جن کا تعلق معاشرے کے انتہائی پسماندہ طبقے اور دیہات سے ہوتا ہے، یا وہ طالب علم ہوتے ہیں جو کالج یونیورسٹی کو افورڈ نہیں کرسکتے .قدرے حالیہ اعداد و شمار کی بات کریں تو پاکستان میں 35 ہزار یا اس سے کچھ زائد دینی مدارس ہیں۔ ان میں سے کوئی 200 یا 250 مدارس براہِ راست دہشت گردی میں ملوث بھی رہے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ موجودہ آپریشن کے بعد ان پر قابو تو پایا گیا ہے لیکن میری معلومات کے مطابق یہ اقدام ابھی ناکافی ہے .مدارس میں جس قسم کا مائنڈسیٹ بنایا جاتا ہے وہ کسی بھی طرح سے آج کی دنیا کےلیے قابل قبول نہیں۔ آپ آسانی کےلیے اسے کنویں کا مینڈک سمجھ لیجیے۔ اگر یہ مدارس وہی کام کررہے ہوتے کہ جس کا یہ پرچار کرتے ہیں، تو شاید یہ مسائل نہ ہوتے۔ لیکن ایسا نہیں۔ ہر فرقے کی اپنی ایک الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے، ہر مسلک کی اپنی مسجد ہے۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں اتنی مساجد موجود ہیں کہ اگر پورے پاکستان کے مسلمان ایک نماز باجماعت پڑھنے مساجد کا رُخ کرلیں تو بھی کئی مساجد خالی نظر آئیں گی۔ لیکن اِن کے نام پر لیا جانے والا چندہ کہاں جاتا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔اس کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ’صرف میں ہی صحیح اور تم غلط‘ کا ہے۔ فروعی مسائل پر پیچیدہ بحث نے بھی معاشرتی بگاڑ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ یہ بحثیں سوچی سمجھی سازش کے تحت کی جاتی ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر یہ بحثیں نہیں ہوں گی تو اِن کا دھندہ کیسے چلے گا؟ میں نے آج تک کسی جینوئن عالم کو کبھی فروعی بحث میں الجھتے ہوئے نہیں دیکھا، بلکہ وہ مخالف کی رائے کا احترام کرتے ہیں اور ذاتی تعلقات کو قربان نہیں کرتے۔ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، یعنی بمشکل ایک فیصد ہوگی۔ 99 فیصد کی دکانداری ہی ایسی بحث سے وابستہ ہے۔ لہٰذا آپ کسی بھی مسلک کی مسجد میں چلے جائیے، وہاں پر آپ کو فروعی مسائل پر بحث ہی نظر آئے گی۔ یہ وہ مینٹل فریم ورک ہے جس کا سدباب کرنا ضروری ہے، ورنہ یہ معاشرتی بگاڑ مزید بڑھے گا۔مدارس کے پڑھے ہوئے 90 فیصد بچے کیا کرتے ہیں؟ کسی مسجد میں موذن یا امام ہوتے ہیں، کسی مدرسے میں پڑھاتے ہیں، یا اپنا مدرسہ کھول لیتے ہیں۔ مجھے کوئی بتائے کہ اِن مدارس کے فارغ التحصیل میں سے کتنے ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، بیوروکریٹ یا صحافی بنتے ہیں؟ کوئی ایک نامور صحافی بتائیے جو کسی مدرسے کا فارغ التحصیل ہو اور اُس کے بعد شرح کا موازنہ کیجیے گا۔ یہ سوشل ڈس بیلنس ہے، جہاں احساس کمتری جنم لیتا ہے، وہیں اس کی وجہ سے دیگر مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔مدارس کے نصاب میں عصری مضامین کا شامل ہونا بھی ضروری ہے تاکہ یہاں کے فارغ التحصیل بھی معاشرے کے کارآمد اور مفید افراد بن سکیں۔ سعودیہ اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں جمعے کا خطبہ تک لکھا ہوا آتا ہے اور منبر پر بیٹھنے والے کی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ اُس سے ہٹ کر کوئی بات بھی کرسکے۔ یقین کیجیے کہ وہاں کسی بھی قسم کا اسلام خطرے میں نہیں پڑا۔ نیز مدارس کو ملنے والی گرانٹس، فارن فنڈنگ اور دیگر آمدن کا بھی سائنٹفک ریکارڈ رکھنا ضروری ہے، تاکہ بیلنس قائم ہوسکے۔اگر ہم نے اب بھی ایسا نہ کیا تو ایف اے ٹی ایف اور گرے لسٹ والے معاملات چھوٹے ہیں، دنیا اس سے بھی بڑے قدم اٹھا کر ہمارا ناطقہ بند کردے گی۔ لہٰذا جذباتی پکچر سے باہر آکر حقیقی پکچر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر یہ مسائل حل نہیں ہوں گے جن کا حل کیا جانا بے حد ضروری ہے
فیس بک کمینٹ