تصور کریں کہ یہ لوگ جو جانوروں پر ترس نہیں کھاتے وہ اقتدار ملتے ہی انسانوں کا کیا حال کریں گے؟ حالیہ دنوں میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے اپنے مخالف اور ملک کے مقبول سیاسی رہنما سابق و اسیر وزیر اعظم نواز شریف کا نام بیچارے گدھے (بے زبان) پر لکھ کر جس طرح اس پر تشدد کیا ہے اس پر اگر وہ امریکہ سمیت کسی ایسے ملک میں یہ کرتے جہاں جانوروں کو بھی حقوق حاصل ہیں تو کب کے سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ میں حیران ہوں کہ عمران خان جو کہ بہرحال جانوروں سے محبت پر انسانی رشتوں کو بھی ترجیح دینے میں مشہور ہیں (کم از کم اس بات میں تو) کسی طرف سے اب تک گدھے پر اس کے کارکنوں کے ہاتھوں ایسی بربریت پر نہ کوئی مذمت سامنے آئی ہے اور نہ ہی انکی سرزنش۔ سرزنش کیا یہ ملکی پاکستانی قوانین میں بھی قابل تعزیر جرم ہے۔ جانوروں کے ساتھ ظلم کا قانون موجود ہے۔
سندھ اور ملک میں ایک جج گزرا ہے جسٹس محمد بخش۔ جسٹس محمد بخش ایک ایسا نڈر اور بے ریا ( بے رعایت) جج تھا جس نے اپنے دور میں اور آج تک بھی ملکوں ملکوں شہرت اور نیک نامی پائی تھی۔ جسٹس محمد بخش ان دنوں سندھ چیف کورٹ میں اس بنچ میں شامل تھے جس نے ملک کے بدمست گورنر جنرل غلام محمد کی طرف سے قانون ساز اسمبلی توڑے جانے کے خلاف اسپیکر مولوی تمیزالدین کے کیس کا فیصلہ لکھا تھا۔ یہ فیصلہ قانون سازاسمبلی کی بحالی اور اسپیکر مولوی تمیزالدین کیس کے حق میں تھا۔ ان کے ساتھ جج محمد بچل بھی شامل تھے۔ جسٹس محمد بچل کا ذکر پھر کبھی سہی۔ لیکن یہ سندھ سے پاکستان کی عدلیہ کے وہ جج تھے جنہوں نے اپنی انصاف پسندی، بے خوفی، غیرجانبداری کو نہ کبھی خود نمائی میں بدلا نہ کبھی خود تشہیری میں۔ یہ ملک کی بدقسمتی تھی کہ جسٹس محمد بخش، جسٹس بچل اور انگریز چیف جج کے اس فیصلے کو مسترد کرکے اس وقت کی فیڈرل کورٹ کے چیف جج جسٹس منیر نے حکومت کی طرف سے اپیل منظور کرتے ہوئے گورنر جنرل کے حق میں فیصلہ دیکر نظریہ ضرورت کے تحت ملک میں جمہوریت کا اس کے آنے سے قبل ہی جنازہ پڑھ لیا تھا۔
لیکن جب یہ جسٹس محمد بخش ریٹائرہوئے تو اپنے شہر نوشہروفیروز میں مظلوم جانوروں کی خبر گیری کرنے نکل پڑے تھے۔ جسٹس محمد بخش ریٹائر ہونے کے بعد گویا اپنی ذات میں جانوروں کو ظلم سے تحفظ کی یک رکنی تنظیم تھے۔ وہ ہر صبح و شام گھوڑے اور گدھے گاڑیوں میں جوتے جانوروں کا خیال رکھتے۔ ان سے زیادتی پر ان کے مالکوں کی سرزنش کرتے اگر ضروری ہوتا تو سنگین خلاف ورزی پر وہ جانور کے مالک کے خلاف متعلقہ مجسٹریٹ سے بھی رجوع کرتے۔
اسی طرح میں جانتا ہوں کہ کراچی میں بھی لاوارث اور انسانی ظلم کے شکار جانوروں کو ظلم سے چھڑانے اور انکو اپنانے کی ایک سے زائد تنظیمیں بنی ہوئی ہیں۔ ایک جینوئن لوگوں کو تو میں بھی جانتا ہوں۔ معروف اداکارہ اور ہماری دوست اور سابق ساتھی صحافی نمرہ بچہ بھی ایسی تنظیم میں سرگرم رہیں۔ نمرہ نے بھی اپنے گھر پر ظلم کے ستائے ایسے جانور جمع کیے ہوئے تھے۔
کراچی میں جانوروں اور عمارتوں اور زمینوں کا دھنی سائیں (آواز اٹھانے والا) وہ بہادر بڈھا پارسی کالم نویس اردیشر کاؤس جی بھی تھا۔ کاؤس جی نے اپنے کلفٹن باتھ آئی لینڈ میں گھر پر کئی لاوارث با وارث جانور اپنائے ہوئے تھے۔ باتھ آئی لینڈ کا دھوبی ایک دفعہ کاؤس جی کے پاس یہ دکھڑا سنانے آیا کہ مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے اب وہ اپنے گدھے کی دیکھ بھال نہیں کر پارہا تو کاؤس جی نے اس سے کہا کہ گدھا کو وہ اسکے گھر چھوڑ جائے، وہ باقی جانوروں کے ساتھ پلتا رہے گا۔
مجھے اچھا لگا بلاول ہاؤس میں بھٹو بہنیں کم از کم جانوروں کا تو خیال رکھتی ہیں۔
کارکنوں کا کیا دوش کہ جب لیڈر ہی ان تمام سیاسی کارکنوں اور اکثریتی عوام کو ’’گدھا ‘‘ ہی قراردے جو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز شریف (مستقبل کی وزیر اعظم؟) کے استقبال کو گئے تھے۔ یہ بہت ہی خطرناک رجحان ہے اس سے ملتا جلتا جب انیس سو ستر کے انتخابات کے بعد بھٹو نے لاہور کے جلسے میں کہا تھا ’’اگر میری پارٹی کا کوئی ایم این اے ڈھاکہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے گیا تو میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘ پھر آپ نے دیکھا کہ بات ٹانگیں توڑنے سے کہاں جاکر نکلی۔ ملک توڑ اور گردن توڑ۔
بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک فلم اداکار رنگیلا نے بنائی تھی ’’گدھا اور انسان‘‘۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ بھٹو کے انداز خطابت (ابھی بیانیہ پیدا نہیں ہوا تھا) پر گہری چوٹ ہے۔ وہ فلم میں نے بھی سکھر کے شالیمار سنیما میں دیکھی۔ آج کوئی رنگیلا کہاں سے آئے جو پھر ایک فلم بنائے ’’پھنے خان اور گدھا‘‘۔
وہ ملک جہاں انسان ہی گدھے سمجھے جائیں وہاں بیچارے گدھے پر ظلم کا کسے قیاس آنا ہے۔حبیب جالب کی نظم کبھی پرانی نہیں ہوتی ’’میں نے اس سے یہ کہا‘‘۔ پاکستان کی ساری سیاسی تاریخ کو ’’ایک گدھے کی سرگزشت ‘‘ میں لکھا جا سکتا ہے۔ ہمارا دوست مصدق سانول کہا کرتا تھا کہ جہاں گدھا دیکھو تو سمجھ جانا اب اوس غربت بھری بستی آنےوالی ہے۔ غریب بستیوں کے غریب ظلم سہتے انسان اور گدھے۔
مجھے ذوالفقار علی بھٹو کے دیرینہ ملازم عثمان سومرو عرف فلیش مین نے دوران انٹرویو بتایا تھا کہ ایک دفعہ ذوالفقار علی بھٹو نے اسکی خدمات کے اعتراف میں اسے اپنے امریکی کالج کا میڈل تحفے میں دیا تھا جو اس نے یکم مئی (کئی ملکوں میں یوم مزدور ) کوگدھے کو پہنا دیا تھا اس اعتراف میں کہ اس جانور سے بڑا محنت کش کوئی نہیں ہو سکتا۔ جانوروں چاہے انسانی حقوق کے علمبرداروں کو غریب گدھے پر تبدیلی آزمانے والوں کے ظلم کا نوٹس لینا چاہیے۔ اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔
آجکل سینٹرل پارک نیویارک کے سامنے گھوڑاگاڑیوں پر جانوروں کے حقوق کی تنظیم نے گھوڑوں پر ظلم کے خلاف سٹی میں زبردست مہم چلائی ہوئی ہے۔ جب میں نیا نیا نیویارک آیا تھا تو کسی دوست نے بتایا تھا کہ یہ گھوڑا گاڑیاں عمران خان کی ہیں۔ پتہ نہیں تھیں کہ نہیں۔ پھر کسی نے کہا کہ یہ سینٹرل پارک کے سامنے جو فائیو اسٹار ہوٹل ہے وہ زرداری کا ہے۔ ایسا تو دنیا کے جس بڑے شہر میں گیا سنا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ