چند روز پہلے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ایک اسپیشل رپورٹ شائع ہوئی جس کا تعلق لاہور ایکسپو سنٹر میں منعقد ہونے والی ایک نمائش سے تھا۔ اس ’’میڈ اِن فیصل آباد‘‘ کا انعقاد جنگ میڈیا گروپ اور فیصل آباد چیمبر آف کامرس کی طرف سے کیا گیا تھا جسے آل پاکستان ٹیکسٹائل پروسیسنگ ملز ایسوسی ایشن (APTMA)کا تعاون بھی حاصل تھا۔ یہ ایک شاندار اور کامیاب ایگزیبشن تھی لیکن میرا موضوع ذرا مختلف ہے اور کچھ عجیب بھی۔اس اسپیشل رپورٹ میں رنگین تصویروں پر مشتمل ایک پٹی بھی تھی جس میں بارہ فرزندان فیصل آباد کی تصویریں بھی تھیں۔ دائیں سے بائیں ترتیب کے مطابق حبیب جالب، حسن نثار، ڈاکٹر عبدالسلام، ضیاء محی الدین، بھگت سنگھ، نصرت فتح علی خان، راحت فتح علی خان، امانت علی، محمد آصف، سعید اجمل، ریشم اور ارفع کریم پر کہانی ختم ہو جاتی ہے حالانکہ اس صرف سو سال پلس کم سن شہر نے لاتعداد قد آور لوگوں کو جنم دیا مثلاً ہاکی کے میدان میں اختر رسول اور ارشد چوہدری کی خدمات کو کون بھلا سکتا ہے؟ ارشد چوہدری تو اسکول سے لے کر کالج تک میرا کلاس فیلو اور پھر قریبی ترین دوست بھی تھا۔ ارشد کےچچا سسر اور اختر رسول کے والد چوہدری غلام رسول کو کون نظر انداز کر سکتا ہے؟ چوہدری امین کے بغیر بات کیسے مکمل ہو سکتی ہے؟اسی طرح تعلیم کے شعبوں میں حشمت خان صاحب اور کرامت حسین جعفری جیسی شخصیات کا ذکر کئے بغیر تو یونہی ہے جیسے وضو کے بغیر نماز۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نصرت اور راحت کی بات کرتے ہوئے ان کے بزرگوں کو بھلا دیا گیا حالانکہ استاد فتح علی خان، استاد مبارک علی خان صاحبان اپنے ’’بچوں‘‘ سے بھی بہت بڑے لوگ تھے۔ فتح علی خان نصرت کے والد اور راحت کے دادا تھے۔ راحت کے والد فرخ اور والدہ رفعت بھی میرے بچپن کے ہمجولی۔ فتح علی خان مبارک علی خان کے ساتھ استاد حیدر ایک نامور طبلہ نواز تھے۔ میں نے بڑے بڑوں کو ان کے ہاتھ چومتے دیکھا۔ یہ سب کم یاب نہیں نایاب لوگ تھے۔شعر و ادب کی طرف آئیں تو میرے شعور پر شور علیگ کا گہرا گھنا سایہ ہے۔ افضل احسن رندھاوا تو ابھی کل کی بات ہے۔ ’’رن، گھوڑا تے تلوار‘‘ کا خالق جس کا جدید پنجابی شاعری میں جوڑ ہی کوئی نہیں۔ اسی طرح ہمارا بابا عبیر ابو ذری درویشوں کے درویش، شاعری کے حوالہ سے میرے پہلے اور آخری استاد قمر لدھیانوی جنہوں نے لکھا تھا۔اجنبی شہر یہ نسبت تو رہے گی تجھ سےتیری گلیوں میں ہے کھویا ہوا اپنا کوئی ۔ ڈاکٹر ریاض مجید نے لکھاوقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئےرو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے۔ اور، میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں اسی طرح بانکا عدیم ہاشمی اور باغی افتخار نسیم۔ حفیظ احمد جس نے بھٹی برادران کے لئے ’’ظلم دا بدلہ‘‘ جیسی فلم بھی لکھی۔ تنویر جیلانی جس نے سقوط ڈھاکہ پر اعلان کیاگلی گلی میں ہوا میری ہار کا اعلانیہ کون جانے کہ میں تو بساط پر ہی نہ تھااحسن زیدی، حزیں لدھیانوی، انور محمود خالد، خالد شریف اور جواں مرد سلیم بیتاب جس نے کہا تھامیں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں دیکھا جو غور سے تری تصویر بن گئی ۔ ریگل سینما والوں کی بیٹی سے شادی کرنے والے اقبال سنگھ چھاپرا جو بعد ازاں انڈین ایئر فورس کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچے۔ تقسیم کے مدتوں بعد لائل پور (فیصل آباد) آئے تو دونوں میاں بیوی گھٹنوں کے بل روتے ہوئے ریگل سینما میں داخل ہوئے۔اللہ کروٹ کروٹ جنت بخشے پروفیسر اشفاق بخاری کو جو ’’لائل پور کے ماتھے کا جھومر ریگل چوک‘‘ اور ’’چناب کلب‘‘ جیسی کتابیں چھوڑ گئے۔ یہ کالم کوئی شکوہ شکایت نہیں۔ مجھ سے بہتر کون جانتا ہے کہ اخبار میں سپیس اور وقت کی کمی کیا ہوتی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد قرض چکانا اور یہ بتانا ہے کہ لائلپور نے ہر شعبہ زندگی میں ایسی شاندار شخصیات کو جنم دیا جن کی فہرست بہت طویل ہے جبکہ شہر کی تاریخ صرف ایک سو کچھ سال سے زیادہ نہیں۔پاکستان میں صرف اسلام آباد ہی فیصل آباد سے ’’چھوٹا‘‘ ہے اتنی کم سنی میں ایسے قد آور شاید ہی کسی اور شہر نے پیدا کئے ہوں’’لائل پور اک شہر ہے جس میں دل ہے مرا آباد‘‘
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ