لودھراں : صوبہ پنجاب کے ضلع لودھراں سے تعلق رکھنے والے زمیندار جعفر گیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں رواں برس اپریل کے مہینے میں گرمی کی شدت معمول سے زیادہ ہے اور اس صورتحال میں آم کی فصل متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔جعفر گیلانی کے مطابق وہ موسم کی موجودہ غیرمعمولی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنی آم کی فصل کو زیادہ پانی دے رہے ہیں تاکہ نقصان کا اندیشہ کم سے کم رہے۔جعفر گیلانی آم کے کاشتکار ہیں اور ان کی زمینوں پر اس وقت ایک بڑے رقبے پر آم کے درخت پر پھل لگے ہوئے ہیں۔
’ہم اس وقت اس گرمی سے لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں نا صرف آم کا سائز متاثر ہو سکتا ہے بلکہ اوسط فصل بھی متاثر ہ وسکتی ہے۔ بیماری کا حملہ ہو سکتا ہے جس کے باعث پھل درختوں سے گر سکتے ہیں۔‘
جعفر گیلانی کے مطابق اس وقت ان کے پاس صورتحال سے نمٹنے کا فی الحال یہی چارہ ہے کہ وہ آم کے باغوں کو معمول سے زیادہ پانی فراہم کریں، جو کہ وہ گذشتہ کئی دن سے کر رہے ہیں۔جعفر گیلانی کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ تو اضافی پانی فراہم کر رہے ہیں مگر پنجاب میں کاشتکاروں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو گرمی کے ساتھ ساتھ پانی کی بھی قلت کا شکار ہے اور اس صورتحال کے باعث اُن کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے کاشتکار محمود شاہ کہتے ہیں کہ گندم کی فصل پانی کی کمی اور گرمی زیادہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی متاثر ہوئی ہے اور اب اسی صورتحال کے باعث آم کی فصل متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق پاکستان اس وقت شدید موسمی صورتحال سے گزر رہا ہے جس میں رواں سال مارچ کے ماہ میں اوسطاً 62 فیصد بارش کم ہوئی ہے جبکہ مارچ کے ماہ ہی میں گرم موسم کا ریکارڈ بھی قائم ہوا ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق رواں ماہ اپریل میں بھی درجہ حرارت زیادہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔
محکمہ موسمیات پاکستان کے ترجمان ڈاکٹر ظہیر الدین بابر کے مطابق رواں برس مارچ کے مہینے میں سنہ 1961 کے بعد سے گرمی اور خشک سالی کے ریکارڈ ٹوٹے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ سنہ 1961 سے اب تک رواں برس مارچ کا مہینہ نواں بڑا خشک سالی کا مہینہ تھا۔ انھوں نے کہا کہ مارچ 2022 اوسط درجہ حرارت سے تقریباً چار ڈگری زیادہ رہا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح ملک کے مختلف شہروں میں درجہ حرارت کے ریکارڈ بھی ٹوٹے ہیں بلکہ کم درجہ حرارت کے ریکارڈ بھی ٹوٹے ہیں۔ جس میں کالام میں مارچ کے ماہ میں درجہ حرارت منفی پانچ سے زیادہ رہا ہے۔
محکمہ موسمیات سندھ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق کراچی میں بھی گرمی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ مارچ اور جاری اپریل کے ماہ میں معمول کا درجہ حرارت چار سے چھ ڈگری زیادہ رہا، جس نے سنہ 2010 کا ریکارڈ توڑا۔
ریٹائرڈ ڈائریکٹر ملتان مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر حمید اللہ کا کہنا ہے کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مارچ اور اپریل کے مہینوں میں گرمی وقت سے پہلے اور زیادہ پڑ رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اپریل وہ مہینہ ہوتا ہے جس میں آم کا پھل درختوں پر لگ چکا ہے اور اس کی افزائش کا عمل جاری ہوتا ہے جس کے دوران وہ پھل نا صرف مضبوط ہوتا ہے بلکہ اس کے ممکنہ سائز کا تعین بھی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق اپریل کے ماہ میں آم کو مناسب گرمی چاہیے ہوتی ہے اور اگر ان دنوں میں درجہ حرارت ضرورت سے زیادہ بڑھ جائے تو ناصرف پھل کمزور ہونے اور گرنے کا امکان ہوتا ہے بلکہ اس کا سائز بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو کسانوں کو چاہیے وہ اپنے باغات میں معمول سے زیادہ پانی دیں، جس سے ممکنہ طور پر زمین میں گرمی کا زور کم ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر ظہیر الدین بابر کے مطابق موسمی تبدیلی کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک وجہ جو اس وقت محسوس کی گئی وہ بہار اور سردیوں کے موسم کا سکڑنا ہے۔
’رواں برس ہم نے محسوس کیا کہ ملک کے کئی علاقوں میں موسم بہار کا دورانیہ انتہائی کم رہا اور سردیاں ختم ہوتے ہی ایک دم گرمیاں شروع ہو گئیں تھیں۔‘ڈاکٹر سردار سرفراز بھی کہتے ہیں کہ اس سال محسوس ہوا کہ کئی علاقوں میں بہار آئی ہی نہیں یا بہت کم دن رہ کر گزر چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایسی کوئی تحقیق تو موجود نہیں جس کی بنا پر بتایا جا سکے کہ پاکستان میں بہار کے دن اوسطاً کتنے کم ہوئے ہیں تاہم مشاہدے کی بنیاد پر ہر کوئی اس کو محسوس کر رہا ہے اور اس کے منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
سنہ 2016 کی محکمہ موسمیات کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گرمیوں کا سیزن تقریباً 145 دن ہوتا ہے مگر محکمہ موسمیات کے مطابق اب یہ بڑھ کر 170 دن تک پہنچ چکا ہے۔
جس کا مطلب ہے کہ ہر سال گرمیوں کے موسم میں ایک دن کا اضافہ، سرد و بہار کے موسم میں ایک دن کی کمی ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ سردیوں کا اوسط موسم 120 دن سے کم ہو کر 85 دن تک رہ چکا ہے۔
ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہیٹ وے کی وارننگ مختلف غیر معمولی موسمی صورتحال دیکھ کر دی گئی تھی۔ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق اس سال جنوری میں شمالی علاقہ جات میں ہونے والی برفباری بھی مناسب مقدار میں نہیں ہوئی جس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پہاڑوں پر کم برفباری ملک میں پانی کی کمی کا باعث بن سکتی ہے۔
ڈاکٹر سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ بارشیں نہ ہونے یا کم ہونے کا زیادہ براہ راست اثر بارانی علاقوں پر پڑتا ہے۔انھوں نے کہا کہ میدانی علاقے میں جب بارشیں نہیں ہوتیں تو ٹیوب ویل کا استعمال زیادہ ہو جاتا ہے جس سے نہ صرف زیر زمین پانی کی سطح متاثر ہوتی ہے بلکہ ماحول پر بھی اس کے اثرات پڑتے ہیں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ