دشتِ احساس میں نظم بوتے رہو ۔۔ حناعنبرین
میں جہالت سے لتھڑے ہوئے فرش پر
اوندھے منھ آڑھی ترچھی پڑی
کربِ تخلیق سہتی رہی
دردِزہ کی اذیت سے نا آشنا
کربِ تخلیق کی الجھنیں،جو سلجھتی نہیں
لفظ ترتیب کے غم میں الجھے ہوئے
کس خزانے کی کنجی نہیں مل رہی
ذہن ہے یا کباڑی کی دکّان ہے
سات پشتوں کا ڈر جیسے اک ناگ ہو
چھپ کے بیٹھا ہوملبےکے نیچے کہیں
میں یہاں، وہ نہیں
جس کے ہونے سے میرا بھی اثبات ہو
تو کوئی بات ہو!
۔۔
لفظ اپنی نمو پر ہی حیران ہے
لفظ موتی ہے یاقوت، مرجان ہے
لفظ پھولوں بھرا اک دبستان ہے
نظم صدیوں کی وحشت سے پھوٹا ہوا راز ہے
ننھی چڑیا پہ یکدم جھپٹتا ہوا باز ہے
اس کا لہجہ ہے، خفگی ہے، انداز ہے
نظم کو کہنے والے پہ خود ناز ہے
نظم سوچوں کے سرسبز جنگل میں گونجا ہوا ساز ہے
یہ زمانوں کی تہہ میں پنپتا محبت کا آغاز ہے
نظم ہوتی ہے تب جب شگوفے کھلیں
نظم ہوتی ہے تب جب زمانوں کے بچھڑے ہوۓ آ ملیں
.
ایک منظر کو کب تک لکھا جاۓ گا
زور تخلیق اٹکن کو کھا جاۓ گا
یوں کباڑ اپنے لفظوں کا ڈھوتے رہو
اور صدیوں کی وحشت پہ روتے رہو
ایک دھاگے میں ان کو پروتے رہو
زنگ آلود سالوں سے جالوں بھرا میل دھوتے رہو
شب کے صحراؤں میں خوار ہوتے رہو
جب تلک حرف ماتھے پہ بوسہ نہ دے
دشتِ احساس میں نظم بوتے رہو