جس معاشرے میں ادب ردی کی حیثیت اختیار کر جائے۔ جہاں کتابوں کے بدلے”سویاں“ لے لی جائیں اور قیمتی اوراق پر پکوڑے فروخت ہوں۔ جہاں ادب کو صرف بے فکرے لوگوں کا مشغلہ اور ادیب کو”کام کا نہ کاج کا‘ سمجھا جائے جس معاشرے میں ادب کی اس حد تک بے ادبی کی جائے کہ کتابیں ہی فٹ پاتھ پر آجائیں تو پھر اس معاشرے کو بھی فٹ پاتھ پر آنے یعنی بھکاری بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پھر اس معاشرے کا وہی حال ہوتا ہے جیسا کہ ہمارا ہو رہا ہے۔
کوئی بھی قوم دنوں یا مہینوں میں نہیں بنتی کسی ہجوم کو قوم بنانے اور معاشرے کی اخلاقی تربیت کرنے کے لیے سالہا سال کی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کو جگانے اور آزادی کے لیے یک جاں ہونے میں علامہ اقبالؒ کی شاعری بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس طرح کی محنت اور مشقت کا اہم کردار ادیب ہی ادا کرتا ہے۔ میرے خیال میں بالواسطہ اور بلاواسطہ درحقیقت ادیب جیسے مفکر لوگ ہی معاشرے کی تربیت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی بھی تصویر کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ تصویر کا ایک ہی پہلو دیکھتے ہیں اور کچھ لوگ تصویر کے دونوں پہلوو¿ں پر نظرثانی کرتے ہیں لیکن ادیب کا مقام اور مرتبہ اس سے کئی گنا بلند ہے کیونکہ ادیب سیٹلائیٹ کی طرح معاشرے کے اردگرد گھومتا ہے اور ہر پہلو کا مشاہدہ کرتا ہے۔ معاشرے کے لوگوں کو ان تمام تصویروں کے ایک نئی راہ سے روشناس کرواتا ہے۔ جو معاشرے کو خبردار کرتے ہوئے تہذیب و آداب سکھاتا ہے۔
اردو لغت/ افسانہ نگاری کے دو روشن ستار ے سعادت حسن منٹو”اور بانو قدسیہ“ جنہوں نے ادب کے عالمی انسائیکلوپیڈیا میں جگہ بنائی۔ سعادت حسن منٹو نے لوگوں کے نفسیاتی پہلوو¿ں کا مشاہدہ کیا اور زندگی کو سوچنے اور سمجھنے کے نئے پہلو اجاگر کئے معاشرہ چاہے کیسا ہی ہو اور افراد چاہے پڑھے لکھے ہو یا ان پڑھ وہ سوچتے اپنے ادراک سے ہی ہیں جتنی ان کی ذہنی صلاحیت اور نفسیاتی اپروچ ہو گئی ہے وہ انسان ویسا اور وہاں تک ہی سوچ سکتا ہے۔ مفکر اور فنکار لوگ کسی معاشرے کے ڈاکٹر اور راہبر ہوتے ہیں۔ ادیب کو الفاظ کا جادو بھی کہتے ہیں جو سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ ادیب اپنے الفاظ کے جادو سے دکھی حال لوگوں کی مرہم پٹی کرتا ہے، تو کہیں اپنا درد دل بھی سناتا ہے۔ اور کہیں مایوسی کے اندھیروں میں روشنی کی کرن بن کر چمکتا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ ادیب لوگوں کی پسند اور ضروریات کو مدنظر رکھ کر لوگوں کا سب سے نزدیکی رہنما بن کر ان کا حال دل بیان کرتا ہے۔ جو سیدھا لوگوں کے دل و دماغ پر اپنا گہرا اثر انداز ہوتا ہے۔ معاشرے کی کردار سازی کرنا بھی ادیب کا کمال ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں مشینوں نے انسان کے تمام کام آسان اور ترقی یافتہ بنا دئیے ہیں اور انسان روز بہ روز ترقی کی منازل طے کر رہا ہے وہی ادب انسان کو انسان بناتا ہے۔ سائنس ایجادات کرتی تو ادب اس کا ہنر استعمال سکھاتا ہے، سائنس نے سوشل میڈیا تشکیل دیا اور دنیا کو گلوبل ویلج کی حیثیت اختیار کر دی تو ادب نے انسان کو سکھایا کہ اس کا بہتر استعمال کیا جائے۔ قانون کی پاسداری اور اخلاقیات کیا ہے۔ ایک اچھا معاشرہ کیسے تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ ادب ہی انسان میں ہمت پیدا کرتا ہے اور اس کو مزید آگے بڑھنے اور معاشرتی ترقی میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، یہاں سائنس تو ہے مگر ہم لوگ ادب سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ ہمارے پاس گاڑی ہے اور چلانی بھی آتی ہے، مگر ہمیں اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی ہے کہ ہماری لاپرواہی سے کئی لوگوں کی جان جا سکتی ہے یا وہ پوری زندگی کے لیے اپاہج ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں پڑھے لکھے لیکن احساس سے عادی لوگوں کی اکثریت ہے اور ہمارا ملک ایٹمی طاقت رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود یہاں پر لوگوں کے جذبات سرد ہو چکے ہیں۔ ہر لحاظ سے ہم ترقی کے منازل طے کر رہے ہیں۔ لیکن ادب اور ادیب سکستی ہوئی موت کی آغوش میں جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرتی برائیوں اور مغربی ثقافت کا قبضہ ہے۔ اب یہاں خون کے رشتے تک سفید ہو چکے ہیں۔ ہر کوئی اپنے مفاد کے لیے کوشاں ہے اور کسی دوسرے کے استحصال سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ لہذا یہ ادیب کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان اخوت بھائی چارے کی فضا قائم کریں اور ان میں احساس ذمہ داری کو فروغ دیتے ہوئے معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے کوشاں رہے۔
فیس بک کمینٹ