حمیرا رحمن ملتان میں اپنے والدین کے ساتھ تھیں انہوں نے اپنی ذہین بیٹی کی حوصلہ افزائی کی وہ سکول میں ہی ریڈیو ملتان کے پروگرام کرنے لگیں ایک باصلاحیت خوش شکل لڑکی کے لیے آسانیاں بھی بہت ہوسکتی ہیں اور دشواریاں بھی گویا نوعمری میں ہی اس نے پیاس اور طلب کے کئی رنگ دیکھے ہوں گے مگر اس نے اسی کو اپنا منشور حیات بنایا ’ بہت سے کام کرنے ہیں ‘ ۔والدین مہذب اور تعلیم یافتہ تھے پھر ایسا ہوا کہ وہ دونوں اس دنیا میں نہ رہے تب حمیرا تھی اور ایک اس کا بھائی الیاس ( چاند ) حمیرا کو سید نسیم الرحمن کی رفاقت ملی اور وہ امریکہ چلی گئی ، کوئی چار عشرے پہلے کسی شاعرہ کے تعارف میں جب لکھا جاتا تھا ‘مقیم امریکہ’ تو بیشتر اہل قلم/ مقالہ نگار بشیر ساربان کی طرح کے ہو جاتے تھے مگر حمیرا نے خود کو کہا ہوگا
‘بہت سے کام کرنے ہیں ‘
اب آپ کے پاس تحسین کے پھول نچھاور کرنے والوں کی کمی نہیں خورشید رضوی ،افتخار جالب ،زہرا نگاہ ، یاسمین حمید ، اصغر ندیم سید ، نجیبہ عارف ۔۔۔
اہل زبان کی اچھائی یہ ہے کہ وہ دلی ، آگرہ ، لکھنئو ، الہ آباد ، امروہہ یا حیدر آباد سے نسبت جوڑا کرتے تھے اور مستند ہو جاتے تھے ۔ اب باہر جاکے خود کو ملتان کا کہیں گل گشت کالونی کا کہیں تو کچھ سبک ساری کا اندیشہ ہو سکتا ہے اس لیے یہ سب کے سب خود کو کراچی سے جوڑتے ہیں ( ‘مہاجر ڈے’ سے بھی پہلے) اس لیے حمیرا رحمن کا بھی خیال ہے اگر کراچی میں امن قائم ہو جائے اس کی روشنیاں بحال ہو جائیں تو پاکستان کا منظر نامہ بدل جائے گا
جس نگری میں بچوں کو بارود نہ چھو سکتا ہو
ایسی اک نگری کا نام کراچی رکھا جائے
تاہم اس کی اچھائی یہ ہے کہ وہ ملتان بھی آتی ہے اور اپنے کمپری ہنسو سکول ملتان کی کلاس فیلو زاہدہ غنی ( مسز مختار ظفر ) کے پاس رہتی ہیں یہاں آرٹس کونسل حسب توفیق مشاعرہ کرتی ہے زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے شاگرد اور کچھ استاد اسے رشک اور حسرت سے دیکھتے ہیں مگر کمال درجے کی تحسین و آفرین کے باوجود وہ خود کو کہتی ہے
‘ بہت سے کام کرنے ہیں ‘
یہ اس کا تیسرا مجموعہ ہے اندمال ( 1985) اور انتساب(1997) کے بعد جو مکتبہ دانیال کراچی نے اب 2024 میں شائع کیا ہے وہ کوشش کرتی ہے جو توقعات اس کے والدین نے اس سے باندھیں جو اس نے خود اپنے تخلیقی وجود سے استوار رکھیں وہ فنی ریاضت اور ہر آن کشادہ ہوتے آفاق کے جلوے سمیٹ کر بارگاہ ادب میں پیش ہو
چند اشعار اسی مجموعے سے دیکھئے :
جو تیز دھوپ میں ہیں سوچ بھی نہیں سکتے
وہ غائبانہ کسی سائباں کا حصہ ہیں
یہ عمر ایسے تضادات میں گذاری ہے
کہ منکرین میں ہیں اور ‘ہاں ‘ کا حصہ ہیں ۔
بہت سے خواب تھے رنگین اس کے تھیلے میں
سو لوگ بیٹھ گئے اجنبی کے چاروں طرف
۔۔
کچھ ایسے خواب جن کے ساتھ تعبیریں نہیں ہوتیں
زمانے بیت جاتے ہیں انہیں تخلیق کرنے میں
۔۔۔
یہ فصل سوکھ گئی ہے ہمارے حصے کی
مگر لگان تو دینا پڑے گا گاوں کے ساتھ
طویل جنگ نئے فیصلے سناتی رہی
کہ اس کو بیر تھا ماوں کی التجاوں کے ساتھ
۔۔
دل کے پاس اندھیرا سا اک کمرہ ہے
صدمے اس کے اندر کاٹنے پڑتے ہیں
اک چہرہ تصویر سے باہر لانے کو
اچھے خاصے منظر کاٹنے پڑتے ہیں
۔ ۔۔
ہم زندگی کے ایسے سبک فیصلوں میں ہیں
جی لگ نہیں رہا ہے درود و سجود میں
۔۔
حمیرا اسے بھلانے میں دیر ہم کو لگی
پر اس کو یاد نہ رکھنے کا اک ملال رہا
۔۔
پیڑ نہ تھے جو چھاوں مسلسل دیتے رہے
پل دوپل کا ہی سودا کر سکتے تھے ہم
۔۔۔
کئی چراغ جلائے ہیں راہداری میں
کسی کئے ہوئے وعدے کی پاس داری میں
اب آئیے واپس اس کتاب کی پہلی نظم کی طرف جس سے حمیرا رحمان نے ‘نام ‘لیا
اندھیرے اپنے ہونے کی خبر اخبار میں دیں گے
ہمیں ایسی خبر کے معتبر ہونے سے پہلے سوچنا ہے
بہت سے کام کرنے ہیں
جنہیں کرنے سے پہلے سوچنا ہے
فیس بک کمینٹ