(گزشتہ سے پیوستہ)
بریڈ فورڈ کے ایک مشاعرے میں جو یار جانی مرحوم و مغفور حضرت شاہ نے کروایا تھا، احمد ندیم قاسمی کی صدارت تھی اور باقی شعرا کے علاوہ میں امجد اسلام امجد اور خالد احمد بھی شاملِ مشاعرہ تھے۔مظفر وارثی اپنی خوبصورت شاعری اور خوبصورت ترنم کےساتھ شامل مشاعرہ تھے، اختتام پر مداحین شعرا کے ارد گرد جمع ہو گئے سامعین میں کھاریاں سے برطانیہ میں آکر بسنے و الے جو بے پناہ دوست اور امارت کے بعد تازہ تازہ اب’’ دوست‘‘ تھے، وہ وارثی صاحب کے پاس آئے اور تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے کہا وارثی صاحب اللہ نے آپ کولحن دائودی عطاکیا ہے آپ جب اپنا کلام سناتے ہیں تو ہوائیں ساکت ہو جاتی ہیں ،دروبام سکتے میں آ جاتے ہیں آپ ہیر رانجھا کیوں نہیں گاتے؟ یہ سن کر وارثی صاحب بجا طور پر آگ بگولہ ہو گئے شدید غصے کے عالم میں کہنے لگے آپ کیا بکواس کر رہے ہیں ۔اس پر میں نے ان صاحب کو سمجھایا کہ وارثی صاحب بہت عمدہ شاعر ہیں خوبصورت ترنم اللہ نے ان کو اضافی ودیعت کیا ہے میری یہ بات سن کر انہوں نے وارثی صاحب کو ایک بار پھر مخاطب کیا اور کہا میں معافی چاہتا ہوں مجھ سے گستاخی ہو گئی میں تو صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ اللہ کے عطا کئے ہوئے لحن دائودی سے آپ ہیر رانجھا کیوں نہیں گاتے۔اس پر میں ان صاحب کا بازو پکڑ کر پرے لے گیا اور کہا اب آپ نے کچھ کہا تو وارثی صاحب آپ کو ماریں گے ۔مگر آخر تک انہیں یہ بات سمجھ نہ آئی کہ وہ آخرہیر رانجھا کیو ں نہیں گاتے؟
ایک دفعہ اپنے جونیئر اور سینئر ادیب دوستوں کے درمیان ندیم صاحب بتا رہے تھے کہ ایک دفعہ وہ ایک گائوں کی شادی میں گئے وہاں ایک شخص نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے باراتیوں سے پوچھا جانتے ہو آج ہمارے درمیان کتنی بڑی شخصیت موجود ہے؟ جب آگے سے کوئی جواب نہ آیا تو اس شخص نے کہا جاہل کے جاہل ہی رہنا یہ عطا الحق قاسمی صاحب ہیں اس پر سب دوستوں نے قہقہہ لگایا، جس پر ندیم صاحب نے کہا کہ میں نے اس شخص کی تردید نہیں کی میں وہاں عطا الحق قاسمی بنا بیٹھا رہا ۔یہ سن کر میں نے ندیم صاحب سے کہا ایسی ہی فراخدلی کا مظاہرہ میں بھی ان دنوں کرتا رہا ہوں جب ایوب خاور کی ہدایت کاری کی مہارت کے ساتھ آپ کے سوپر ڈرامے قاسمی کہانی کے عنوان سے آن ایئر ہو رہے تھے لوگ ہر قسط کے بعد مجھے مبارک دیتے یہ سمجھ کر کہ قاسمی ،احمد ندیم نہیں عطا الحق قاسمی ہیں اور پھر میں نے ندیم صاحب کو مخاطب کرکے کہا آپ نے گائوں میں جس فراخدلی کا ثبوت دیا تھا میں آپ سے پہلے اس کا بدلہ لے چکا ہوں!
ایک او ربہت مزے کی بات یاد آئی گجرات میں میرے اعزاز میں ایک شام کا اہتمام کیا گیا صدارت ندیم صاحب کی تھی اور امجد اسلام نے میرے بارے میں اظہار خیال کرنا تھا ،میں نے رستے میں امجد کو چھیڑتے ہوئے کہا یار تم کیا بکواس شاعری کرتے ہو کیا تم اس سے بہتر کوئی کام نہیں کر سکتے ؟۔امجد نے پورے سکون سے کہا یہ نہ بھولو میں نے گجرات میں تمہارے بارے میں اظہار خیال کرنا ہے!میں نے فوراً پینترا بدلا اور کہا تم میری بات صحیح طرح سن نہیں سکے میں نے جو بات کہی وہ ان شاعروں کے بارے میں کہی تھی جو ’’بدوبدی‘‘ شاعر بنے بیٹھے ہیں مگر تقریب کے اختتام پر واپسی کے سفر میں ،میں نے امجد کو دوبارہ مخاطب کرکے کہا ’’یار اب تو میں سچ بول سکتا ہوں کیونکہ تم تقریب میں میرے بارے میں مجھے بڑا مزاح نگار ،سفرنامہ نگار، شاعر اور اللہ جانے کیا کیا جھوٹ بول بیٹھے ہو مجھےسچ بولنے دو تم نہایت گھٹیا شاعر ہو اور مجھے ندیم صاحب سے گلہ ہے کہ وہ تمہیں چھاپ کر فنون کی شہرت کو داغدار کیوں کرتے ہیں ‘‘ اس پر امجد صاحب نے کہا یہ مت بھولوکہ فنون نے ابھی شائع بھی ہونا ہے۔ اس دھمکی پر میں نے اسے دوبارہ صدیوں بعد پیدا ہونے والا شاعر قرار دےدیا ۔ندیم صاحب اس دوران ہماری چھیڑ چھاڑ سے بہت محظوظ ہوتے رہے اور ہاں مجھے یاد آیا اپنے اوریا مقبول ان دنوں گجرات میں تھرڈ ایئر کے طالب علم تھے ۔
آخر میں ایک بات یاد آئی حیدر آباد سندھ میں سیدضمیرجعفری چار پائی پر لیٹے لیٹے اونگھ رہے تھے اور میں اور امجد ایک دوسرے سے چھیڑ خانی کر رہے تھے اس دوران ضمیر صاحب نے نیم وا آنکھوں سے ہمیں دیکھا او رکہا ’’آج پتہ چلا کہ جب تمہیں چھیڑ چھاڑ کیلئےکوئی تیسرا نہیں ملتا تو تم دونوں آپس میں نیٹ پریکٹس کرتے ہو‘‘
( جاری )
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ