وزیر اعظم عمران خان کو مسائل کی وجوہات آسان لفظوں میں بیان کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ بالکل اتنی ہی آسانی سے وہ اپنی بات سے مکرنے اور غلطیوں کی ذمہ داری دوسروں کے کاندھوں پر ڈالنے کی مہارت بھی رکھتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں شرمندگی و پریشانی محسوس نہیں ہوتی بلکہ ان کی خود اعتمادی دیدنی ہوتی ہے۔ جھوٹ بولنے اور مشکل ترین حالات میں بھی خود کو کامیاب سمجھنے کی اسی خداداد صلاحیت کی بنا پر وہ اپنے تئیں اقتدار کے سب سے بہتر امید وار ہیں۔
اس بے پایاں صلاحیت کا مظاہرہ انہوں نے پہلے کوئٹہ میں میتیوں کے ساتھ احتجاج کرنے والے ہزارہ کو متنبہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر کیا کہ ’ کوئی وزیر اعظم کو بلیک میل نہیں کرتا‘۔ تاہم جب تدفین کے بعد کوئٹہ آمد پر ہزارہ لیڈروں نے ان سے دریافت کیا کہ’ کیا یہ مظلوم آپ کو بلیک میلر لگتے ہیں‘ تو وزیر اعظم خود اپنی کہی ہوئی بات سے منحرف ہوگئے اور کہا انہوں نے کبھی ہزارہ کو بلیک میلر نہیں کہا۔ بلکہ یہ لفظ پی ڈی ایم کے لئے استعمال کیا تھا۔ کل کلاں پی ڈی ایم کسی طور عمران خان پر بھاری پڑنے لگی تو وہ اپنے دھماکہ خیز بیانات کا بوجھ کسی دوسرے کے کاندھے پر ڈالنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ان کی اسی بے پناہ صلاحیت کی وجہ سے ملکی معاملات کو لشٹم پشٹم چلانے کی کوشش کرنے والے حلقے جنہیں عرف عام میں حقیقی ’مقتدرہ‘ بھی کہا جاتا ہے، حیران ہی نہیں پریشان بھی ہوں۔ یہ سوچ کہیں تو موجود ہوگی کہ پی ڈی ایم تو راولپنڈی کی طرف لانگ مارچ کی دھمکی ہی دے رہی ہے۔ لیکن عمران خان کے اقتدار کو گزند پہنچی تو وہ وزیر اعظم ہاؤس سے سیدھا جی ایچ کیو ہی پہنچیں گے ۔ تب انہیں رولز آف گیم کون سمجھائے گا۔
آج اسلام آباد میں سوشل میڈیا پر سرگرم گروپوں کے نمائیندوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنی اسی صلاحیت کا بے دریغ مظاہرہ کیا ہے۔ ملک بجلی کے مکمل بریک ڈاؤن کی وجہ سے اندھیرے میں ڈوبا ہؤا تھا اور عمران خان اپنی حکومت کے سنہرے کارناموں کی تفصیلات بتانے میں کسی بخل سے کام نہیں لے رہے تھے۔ اس کا نسخہ بھی بہت آسان ہے: کسی کمی کی طرف اشارہ کیا جائے تو پاکستانی پولیس کی روایت کے مطابق کسی بھی معصوم کو پکڑ پر اس پر مدعا ڈال دو۔ جیسے کل رات اچانک ملک بھر میں بجلی غائب ہوگئی تو تحریک انصاف کی سرکار نے انکشاف کیا یہ تو سابقہ حکومتوں کا کیا دھرا ہے جنہوں نے بجلی پیدا کرنے پر توجہ مبذول کی لیکن اس کے سپلائی سسٹم کو درست نہیں کیا۔ البتہ اب عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت میں حکومت اب یہ کام کرنے میں مصروف ہے۔ وزیر توانائی عمر ایوب (جو ماشاللہ ہر حکومت میں شامل رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) ایک دن گزرنے کے بعد اعتراف کیا کہ غلطی کاعلم نہیں اور ابھی اس کا پتہ چلانے میں وقت لگے گا۔ کوئی البتہ یہ نہیں پوچھ سکتا کہ اگر غلطی پتہ نہیں تو قصور وار کیسے پکڑ لئے گئے۔ گدو بیراج کے درجن بھر ملازمین کو کس خوشی میں معطل کردیا گیا۔ اس انوکھے ملک کی لاڈلی حکومت کا یہ بھی کمال ہے کہ نقصان کی بھر پائی کلرک کرے اور وزیروں مشیروں کا کام جھولی بھر بھر کے نعرے لگانا یا قصیدہ گوئی کرنا ہے۔ یا اپنے گناہوں میں اہلکاروں کو قصور وار قرار دینا ہے۔
عمران خان نے آج کی گئی گفتگو میں ملک کو درپیش ہر مسئلہ کے ذمہ داروں کی نشاندہی کردی ہے۔ انہوں نے بتا دیاہے کہ اس وقت ملک و قوم کو سب سے بڑا خطرہ تو ہر اس مخالف آواز سے ہے جو تحریک انصاف کی ناکامیوں پر اٹھتی ہے یا ہر وہ شخص جو ملک میں کسی اصول قاعدے کو مروج کرنے کی بات کرتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ فوج ملکی سلامتی کے لئے خدمات سرانجام دے اور سب کی تعریف و توصیف سمیٹتی رہے۔ سیاسی جوڑ توڑ میں حصہ دار نہ بنے کیوں کہ ملکی آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ عمران خان کا جواب ہے کہ اس قسم کی باتیں کرنے والے دراصل بدعنوان مافیاز کا ٹولہ ہے۔ ساری گیم ہی یہ ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، اب بھی کہتا ہوں کہ این آر او نہیں دوں گا۔ کیوں کہ اس سے ملک کا بڑا نقصان ہوگا ۔ سوال گندم جواب چنا کی اس سے بہتر مثال شاید نہ مل سکے۔ یعنی جس کا ساری کہانی میں ذکر ہی نہیں ، اسی پر بحث و تمحیص کی عمارت کھڑی کی جارہی ہے۔
وزیر اعظم چونکہ کل ہی کوئٹہ کا دھماکہ خیز دورہ کرکے واپس آئے تھے جہاں انہوں نے ازراہ کرم گزشتہ اتوار کو بے دردی سے شہید کئے گئے ہزارہ باشندوں کے لواحقین کے ساتھ بھی ملاقات کی تو ان سے بلوچستان کی صورت حال اور ہزارہ کے خلاف مظالم کے بارے میں بھی استفسار ہؤا۔ ہزارہ کو عمران خان کا احسان مان لینا چاہئے کہ وہ انہیں مظلوم کہتے ہیں اور یہ نہیں کہہ دیا کہ وہ اپنی اس حالت کے خود ہی ذمہ دار ہیں ۔ وزیر اعظم نے اس کا پس منظر بتانے کے لئے افغان جہاد کی تاریخ پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ دراصل اس جہاد کی وجہ سے مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوگئی ہے۔ ہزارہ اسی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ چند برس پہلے تک ان جہادیوں کے بارے میں عمران خان کے مؤقف پر سوال کرنے والا اپنی عزت محفوظ رکھنے کا خود ہی ذمہ دار ہوگا ۔
اس ظلم کی دوسری ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے جو فرقہ پرست گروہوں کو اکسا کر پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کی سازش کررہا ہے۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم کو اس بات کا بھی پتہ ہے کہ جس داعش کو ختم کرنے کے لئے امریکہ نے اپنے متعدد حلیف ملکوں کے ساتھ کئی برس تک مشرق وسطیٰ میں فوجی کارروائی اور بمباری کی ہے، اب اس کی سرپرستی بھارت کررہا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی بوالعجبی ہی ہے کہ وہی امریکہ داعش کے نئے’ سرپرست ‘ بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدے میں بھی شامل ہے اور اسے اپنا اسٹریٹیجک پارٹنر بھی سمجھتا ہے۔ بلکہ چین کی اقتصادی اور عسکری پیش رفت کے آگے دیوار بنانے میں اسی انڈیا کی شدید ضرورت محسوس کرتا ہے۔بلوچستان کی محرومی اور وہاں کے عوام کی پریشانی کی اصل وجہ بھی سابقہ حکومتوں کا سیاسی لالچ اور بدعنوانی تھی۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے عمران خان نے بتایا کہ سابقہ حکومتیں بلوچستان کی کم آبادی کی وجہ سے اس کی پرواہ نہیں کرتی تھیں اور سرداروں کے ساتھ مل کر حکومتیں بنا لیتی تھیں۔ اس طرح یہ سب مل کر لوٹ مار کرتے تھے۔ اب تحریک انصاف وہاں کی حالت تبدیل کرنے کے لئے کثیر سرمایہ صرف کررہی ہے۔ گو اس وضاحت میں یہ تو پتہ نہیں چلتا کہ ایک انقلابی جماعت کی حکومت میں بھی بلوچستان سے مسلسل ناراضی کا اظہار کیوں ہوتاہے، کیوں مختلف طریقوں سے اس مایوسی کو سامنے لایا جاتا ہے اور کیا وجہ ہے کہ صوبے سے حکومتی اتحاد میں شامل ہونے والی بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) حکومت سے علیحدہ ہوکر اپوزیشن اتحاد میں شریک ہونے پر مجبور ہوگئی۔ کیوں کہ مسائل کی سادہ وجہ اور اس سے بھی سادہ حل بتاتے ہوئے ایسی تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں ہوتا۔
پاکستان کے خارجہ مسائل ہوں یا عالمی مشکلات وزیر اعظم نے ان کا بھی نکتہ بہ نکتہ جواب عطا کیا ہے۔ افغانستان سے دوستی کرلی گئی ہے۔ اس کی تفصیلات شاید ابھی قومی راز ہے جو شاید چند دہائیوں پر بعد ہی سامنے آسکیں گی۔ پاکستان نے ہی طالبان کو امریکہ سے مذاکرات پر راضی کیا اور معاہدہ کروایا۔ درست فرمایا۔ پھر یہ بھی مان جائیے کہ حقانی نیٹ ورک کے ذریعے افغان طالبان پاکستان ہی کی پراکسی وار کا حصہ بنے ہوئے تھے؟ مذاکرات نہ کرنے کی سخت گیر بھارتی پالیسی کا جواب بھی تحریک انصاف کی حکومت نے تلاش کرلیا ہے ۔ اس لئے یہ مسئلہ حل ہی سمجھا جائے۔ پہلے بھارت مذاکرات سے انکار کرتا تھا اب پاکستان ان سے منحرف ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ عمران خان نے بتایا ہے کہ جب تک مودی حکومت مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اگست 2019 میں کئے گئے فیصلے واپس نہیں لے گی ، اسلام آباد نئی دہلی سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرے گا۔ یا اللہ ہے کوئی جو اس دستاویز کا سراغ لگا سکے جس میں بھارت نے پاکستان سے بات چیت کی درخواست کی ہو اور پاکستان نے منہ موڑ لیا ہو؟
سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب کہاں ہیں۔ بین الملکی تعلقات میں ’ٹمپریچر اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے مگر پاکستان کی کسی ملک کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے‘۔ پاکستان کا ایک دشمن تو بھارت ہی ہے جس کا نام لینے سے پہلے نصاب کی کتاب ہو یا رائے کا اظہار اگر ’ازلی دشمن‘ کا اضافہ نہ کیا جائے تو کسی کی بھی حب الوطنی پر سوال کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ ویسے تو ملک دشمنی کا الزام بھارت کو سخت سست کہنے والوں پر بھی عائد ہوسکتا ہے بشرطیکہ وہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کسی قسم کا سیاسی بیان نشر کررہے ہوں۔
ذمہ داریوں سے فرار اور مسائل کی سطحی تفہیم کی اس صلاحیت کے ساتھ خوشحالی اور ملکی ترقی کے خواب تو دیکھے جاسکتے ہیں، عوام الناس کی حالت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ جو حکومت اور اس کا سربراہ نصف مدت پوری کرنے کے بعد بھی عذر تراشنے کو ہی کامیابی سمجھے ، اس سے اصلاح اور بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )