یاد پڑتا ہے کہ امریکہ کی مدد سے کارگل میں پھنسے پاک جوانوں کی بحفاظت واپسی کا بندوبست کر کے اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف پاکستان واپس لوٹے تو میں نے وزیر خارجہ سرتاج عزیز کے استفسار پر میاں صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ ’’کارگل کی فتح‘‘ کا ہار گلے میں مت ڈالیں۔ ایسا کیا تو یہ کانٹوں کا ہار ثابت ہوگا، مگر مشاہد حسین صاحب ’’فتح کا ہار‘‘ شریف حکومت کے گلے میں ڈال چکے تھے۔ افغانستان میں طالبان کی ’’فتح مبین‘‘ پہ جب ہر طرف سے کامرانی و شادمانی کے ڈونگرے برسائے گئے اور امریکہ کی مٹی پلید ہونے پر خوب بغلیں بجائی گئیں، تو انگیخت میں اپنے گزشتہ کالموں اور بدلو کی نشریات میں نے بار بار ہوش کے ناخن لینے کی استدعا کی۔ لیکن ہمارے ریٹائرڈ تزویراتی گھوڑوں کو کون لگام دے سکتا ہے، وہ آپے سے باہر ہوگئے اور طالبان سے زیادہ طالبان کے حامی؟ وزیراعظم عمران خان نے تو اسے ’’غلامی کی زنجیریں توڑنے‘‘ کا تاریخی واقعہ قرار دیا اور وزیر خارجہ سے سلامتی کے مشیر تک سبھی طالبان کی حقیقت کو تسلیم کروانے کی مہم پہ چل نکلے۔ ایسے میں جب امریکی استعمار کا عفریت زخم خوردہ ہے، اُسے بار بار کچو کے مارنے کے گناہِ بے لذت کا خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑے گا۔ امریکہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ بلنکن نے ارکانِ کانگرس کے مطالبے پہ پاکستان کے دوہرے کردار کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پاک امریکہ تعلقات کے ازسر نو جائزے کا عندیہ دیا ہے جو ایک سنجیدہ دھمکی ہے اور ظاہر ہے یہ اپنی خجالت مٹانے کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی بھی کوشش ہے جس کا حکومتی اہلکار منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ اب جس علاقائی اتحاد (شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن) کا ہم نے سہارا لیا ہے، اس نے بھی بشمول چین، روس اور ایران طالبان کے سامنے وہی تقاضے رکھے ہیں جو امریکہ اور اس کے اتحادی امارت اسلامیہ افغانستان کے سامنے رکھتے چلے آرہے ہیں۔ یعنی وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر اصرار ، افغان سرزمین سے دہشت گردی کا خاتمہ، شہریوں اور عورتوں کے مساوی حقوق، انسدادِ منشیات اور عالمی اداروں کی بلا رکاوٹ رفاہی کام کرنے کی آزادی۔ اگر کسی نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے افغان عوام کا ساتھ دینے پر زور دیا ہے تو وہ پاکستان کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ ہیں۔ گو کہ چین، روس اور ایران نے امریکہ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا ہے جس نے افغانستان کو درد دیا ہے وہ اسے دوا بھی دے۔ اب اگر دوا بھی امریکہ نے دینی ہے تو وہ اپنی شرائط پر کرے گا۔ امریکہ سمیت عالمی برادری طالبان کی حکومت کو اس کے عمل کے پیمانوں پہ دیکھ رہی ہے اور انہیں ان کے دوحہ کے سیاسی دفتر کی جانب سے دیے گئے وعدوں کو یاد دلارہی ہے۔ اس وقت ایک بڑا مخمصہ درپیش ہے کہ اگر افغانستان کی بیرونی امداد بحال کی جائے تو امارت اسلامیہ مضبوط ہوتی ہے اور اگر امارت اسلامیہ توانا ہوتی ہے تو اس کا اکڑپن بڑھنے کا خدشہ ہے۔ اور طالبان کی نظری انتہا پسندی کو اگر معتدل کرنا ہے تو ان کی بیرونی امداد کی طمع پوری کرنی ہوگی۔ممکنہ انتشار معاشی زبوں حالی اور طالبان کی سخت گیری سے بڑھ سکتا ہے۔ امریکہ اُفق سے بالا رہ کر دہشت گردی کے مراکز کو تباہ کرسکتا ہے اور اسے افغان قومی ریاست کی تعمیر میں ناکامی کے بعد ایک ناکام تجربہ کو کامیاب مثال بنانے میں کوئی رغبت نہیں۔ پہلے کی طرح ’’مجاہدین کی کامیابی ‘‘ کے بعد ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے خاتمے کے بعد امریکہ کا زیادہ سے زیادہ مفاد مزید نقصان کے امکانات کو محدود کرنا ہے۔ اگر شنگھائی تعاون تنظیم افغانستان کو پانچ سات ارب ڈالرز سالانہ امداد فراہم نہیں کرسکتی تو اس کے زبانی جمع خرچ سے افغانستان ایک بڑے المیے سے نہیں بچ سکتا جس کے بد ترین اثرات پاکستان، چین، وسط ایشیا، روس، ایران اور مشرق وسطیٰ پہ ہی پڑیں گے۔ جبکہ پاکستان اور ایران پر اس کے خطرناک مضمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اب اپنی اپنی خیر منانے کی تیاری کرنی چاہئے۔
میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ یا تو طالبان کا جہادی نظریہ حالات کی سنگینی کے ہاتھوں ختم ہوتا جائے گا یا پھر وہ اپنی پرانی روش پہ ڈٹ کر یک و تنہا رہ جائیں گے۔ لگتا ہے کہ وہ نشہ تو اتر رہا ہے، البتہ اماراتی خمار بڑھ گیا ہے۔ دوحہ سیاسی دفتر کے سفارتکار پچھلی نشستوں پر دھکیل دیے گئے ہیں اور جہادی کمانڈر حاوی ہوگئے ہیں اور پرانی کرم خوردہ طالبان حکومت پھر سے براجمان ہوگئی ہے۔ اب تک طالبان نے تین مثبت اشارے دئیے ہیں۔ غیر ملکیوں اور شہریوں کے انخلا میں مدد، عالمی فلاحی تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت اور دہشت گردی کو روکنے کے لیے وعدوں کی تجدید۔ یہی وجہ ہے کہ سکیورٹی کونسل نے افغانستان میں اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کو چھ ماہ کے لیے بڑھاتے ہوئے وہی مطالبات دہرائے ہیں جو عالمی برادری تکرار سے باور کرارہی ہے۔ ساتھ ہی یو این نے ایک ارب ڈالرز سے زیادہ انسانی امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔ لیکن طالبان کے دو تین اقدامات سے ان کی عالمی قبولیت کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ سب سے بڑا دھچکا طالبان کی خالص حکومت کے قیام سے ہوا جس میں دو کے سوا سب پختون ہیں اور کوئی عورت اور شیعہ نہیں ہے۔ عارضی حکومت کا ٹھپہ لگا کر طالبان وسیع البنیاد حکومت کے وعدے کی خلاف ورزی پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ عورتوں کو کام پہ جانے سے روکتے ہوئے، طالبان نے وزارتِ بہبود خواتین کا نام بدل کر ’’برائی کو روکنے اور نیکی پھیلانے‘‘ کی وزارت رکھ دیا ہے جس کی بہیمانہ اور عورت دشمن کارروائیوں سے طالبان کی گزشتہ حکومت بہت بدنام ہوئی تھی۔ طالبان کی اہم وزارتوں بالخصوص وزارت داخلہ و خارجہ پر ایسے وزیر لگائے گئے ہیں جو عالمی دہشت گرد کے طور پر مطلوب ہیں۔ پانچ وزرا کے نام دہشت گردوں کی فہرست میں نمایاں ہیں اور پانچ وزرا وہ ہیں جو گوانتا ناموبے کی بدنامِ زمانہ جیل سے رہا ہوئے ہیں۔ طالبان ترجمانوں کی نرم گوئی اور ان کی سلجھی ہوئی سفارت کاری نے ان کے امریکہ کے ساتھ معاہدہ دوحہ اور امریکی انخلا میں مدد دی اور وہ پیدل چلتے ہوئے بغیر گولی چلائے کابل پہ قابض ہوگئے اور ایسا امریکہ کی خاموشی و نیم رضا کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا، جس سے بد دل ہوکر صدر اشرف غنی بھاگنے پہ مجبور ہوا تھا۔
ابھی دنیا طالبان کے چال چلن کو دیکھ رہی ہے اور جانے پاکستان کی حکومت کو ایسی کیا جلدی پڑی ہوئی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان، اپنے افغان ہم عصروں کی کامیابیوں سے جِلا پاکر پاکستان کے خلاف جہاد کو جاری رکھے ہوئے ہےاور ہم اسے بلا مانگے معافی دینے کو تیار ہیں۔ آخر کب تک پاکستان اور اس کے عوام افغانستان کے حوالے سے اپنی نادیدہ پالیسیوں کا خمیازہ بھگتتے رہیں گے؟
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ