دعووں،وعدوں،طعنوں،دھمکیوں،الزاموں، بہتانوں، دشناموں سے آلودہ سیاسی محاذ پر واقعات اتنی تیزی سے رونما ہو رہے ہیں کہ قوم حیرتوں کے سمندر میں غوطہ زن رہنے پر مجبور ہے۔ مادر وطن ایسا خطہ ارضی بن چکا ہے جہاں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس ”کچھ بھی“ میں خیر خال خال اور خرابی ڈھیروں ڈھیر ہوتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والے واقعات کے نتیجے میں قومی اتفاق کم کم اور نفاق جا بجا دکھائی دے رہا ہے۔ تقسیم در تقسیم سے بات آگے بڑھ کر کشیدگی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک مرحلہ وار چل ہی رہی تھی کہ چار حلقوں (دو قومی اور دو صوبائی) میں ایک ہی دن ضمنی انتخاب کا مرحلہ آ گیا۔ اس روز بات لپکا لپکی سے ہاتھا پائی تک اور گالی سے ہوتی ہوئی گولی تک پہنچ گئی۔ دو گھروں کے چراغ گل ہو گئے۔ کئی افراد زخموں سے چور ہوئے اس روز انتخابی قوانین اور جمہوری روا داری کو اس طرح روندا گیا کہ الیکشن کمیشن کو قومی حلقہ این اے 75 (ڈسکہ) میں دوبارہ پولنگ کا فیصلہ کرنا پڑا۔
اس کے بعد 3 مارچ کو سینٹ کے انتخابات کا مرحلہ آیا تو سیاسی پہلوانوں نے پھر لنگر لنگوٹ کس لئے۔ ایوان بالا کے انتخابات میں عوام الناس کے مجمع کا کوئی موقعہ نہیں ہوتا اس لئے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے کا خدشہ نہیں ہوتا البتہ معزز ارکان اسمبلی سے ووٹ لینے کے لئے مال و دولت اور دیدہ و نا دیدہ دباؤ کے حربے استعمال کرنے کا چلن گزشتہ تین عشروں سے عام ہے ان میں اسمبلیوں کے انتخابات کی طرح کی ”عوامی کشیدگی“ نہیں ہوتی چنانچہ انسانی جسم ”زخم و زخمی“ نہیں ہوتے البتہ دیانت و امانت اور اخلاقی اقدار ”لیر و لیر“ہوتی رہتی ہیں۔ پنجاب اسمبلی سے حصہ بقدر جثہ کے فارمولے پر بلا مقابلہ سینٹر منتخب ہو گئے اس لئے یہاں تو اس طرح کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی البتہ باقی تین صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کے حوالے سے کئی اقسام کے قصے زبان زدِ خاص و عام ہوئے۔ انتہا یہ ہوئی کہ خود سربراہ حکومت اور قائد حکمران جماعت نے تصدیقی الزام لگا دیا کہ ”ارکان اسمبلی کی بولیاں لگیں اور وہ کروڑوں میں بک گئے۔
ان کے لئے اسلام آباد کی جنرل نشست پر نتیجہ توقع اور ظاہری اعداد و شمار کے برعکس تھا۔“ جس امیدوار کو وزیر اعظم نے اپنا امیدوار قرار دے کر اس کی انتخابی مہم چلائی اور جس کی خاطر اُن ارکان اسمبلی سے معانقے کئے جن سے کبھی مصافحہ کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ 5 ووٹ سے ہار گیا۔ حالانکہ ان کے خیال میں اسے بارہ ووٹوں سے جیتنا چاہئے تھا۔ سید یوسف رضا گیلانی کی اس نشست پر کامیابی اور حفیظ شیخ کی شکست کو حالیہ سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ موجودہ وزیر اعظم کو سابق وزیر اعظم نے شکستِ فاش سے دو چار کر دیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے خود بھی اپنے کہے کا پاس رکھا اور قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کر دیا۔ اپوزیشن نے اس ”عمرانی چھکے“ کی اہمیت کم کرنے کے لئے بائیکاٹ کر دیا۔ تاہم اس بار نتیجہ معلوم اعداد و شمار کے مطابق نکلا۔ عمران خان کے اقتدار کو دوسری زندگی مل گئی۔ اب 12 مارچ کو پھر میدان سجے گا۔ اس بار معرکہ چیئرمین سینٹ کے منصب کے لئے ہوگا۔ سید یوسف رضا گیلانی اپوزیشن اتحاد (پی ڈی ایم) کے متفقہ امیدوار کے طور پر اچھی پوزیشن میں ہوں گے۔ ظاہری اعداد و شمار کے مطابق اپوزیشن اتحاد کو 53 جبکہ حکومتی اتحاد کو 47 سینٹروں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ پوزیشن اپنی جگہ مگر وطن عزیز میں کہیں بھی کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اب حکومتی امیدوار موجودہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی ہیں۔ جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد مخالفین کی بھاری اکثریت کے باوجود پر اسرار طور پر ناکام ہو گئی تھی۔ 64 سینٹروں نے تحریک عدم اعتماد پیش کی۔
3پھر کھڑے ہو کر تصدیق کی۔ مگر جب سیکرٹ بیلٹ کی گنتی ہوئی تو پندرہ سینٹر ادھر سے اُدھر ہو چکے تھے۔ اب کی بار مگر مقابلہ سابق سپیکر قومی اسمبلی اور سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے ہے۔ جو سابق صدر آصف زرداری کے امیدوار ہیں۔ گزشتہ سینٹ انتخابات میں انہوں نے سودے بازی کر کے اپنا ڈپٹی چیئرمین بنوانے کے لئے صادق سنجرانی کو چیئرمین بنوا دیا تھا۔ اب ان کی طرف سے ایسی چال کا امکان نا ممکن کی طرح کا مشکل ہے اس کے علاوہ سید یوسف رضا گیلانی خود حیران کن حد تک ”ماہر انتخاب“ ہیں ان کا سیاسی کیریئر اس بات کا شاہد ہے وہ انتخابی کامیابیوں کا زبردست خاندانی ریکارڈ رکھتے ہیں۔ 1935ء میں ان کے دادا محمد رضا گیلانی نے ملتان کے ڈپٹی کمشنر ای سی مون کو ڈسٹرکٹ بورڈ کے انتخاب میں شکست دے کر چیئرمین کا انتخاب جیت لیا تھا۔ اس وقت یہ بہت بڑا اپ سیٹ تھا۔ ان کے والد سید علمدار گیلانی 1955ء میں آئین ساز اسمبلی اور 1956ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انہیں یہ اعزاز حاصل تھا کہ انہوں نے 1940ء کے مسلم لیگ کے لاہور میں منعقدہ تاریخی اجلاس میں شرکت کی اور ملتان کی طرف سے قرارداد پاکستان کی حمایت کی۔
خود یوسف رضا گیلانی نے سیاست میں قدم رکھتے ہی 1983ء میں تب کے وزیر بلدیات سید فخر امام کو ڈسٹرکٹ کونسل ملتان کی سربراہی کے الیکشن میں شکست دی اور چیئرمین منتخب ہو گئے۔ یہ تب بڑا اپ سیٹ تھا جس کے نتیجے میں سید فخر امام کو وزارت چھوڑنا پڑی۔ یوسف رضا 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں ملتان سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1988ء کے جماعتی انتخابات میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد نوازشریف کو ملتان سے قومی اسمبلی کی نشست پر شکست دے کر ایک اور اپ سیٹ کر دیا۔ وہ 1990ء اور 1993ء کے انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور 1993ء سے 1996ء تک سپیکر قومی اسمبلی رہے۔ انہوں نے 2008ء میں بھی الیکشن جیتا اور وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ انہیں پوری قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر اعتماد کا ووٹ دیا۔ قومی اسمبلی کے 90 فیصد اجلاسوں میں بطور وزیر اعظم شرکت کا ریکارڈ قائم کیا۔ وہ بغیر پیسہ خرچ کئے الیکشن جیتنے کا بھی ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اب بھی انہوں نے وزیر اعظم کے امیدوار کو شکست دے کر اپ سیٹ کیا ہے۔ وہ الیکشن لڑنے کا ہنر جانتے ہیں مگر وطن عزیز میں ”کہیں بھی، کبھی بھی“ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں دیدہ سے نادیدہ زیادہ طاقتور سمجھے جاتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ پاکستان)
فیس بک کمینٹ