وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد یہ سوال بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اب حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کا حکومت گراو مہم میں نئے سیاسی کارڈ کیا ہونگے او رکیسے وہ حکومت کو کسی بڑے دباو کی سیاست میں لاسکتے ہیں ۔کیونکہ اعتماد کے ووٹ کے بعد فوری طور پرتحریک عدم اعتماد کا معاملہ لٹک گیا ہے جو موجودہ صورتحال میں حکومت کے لیے ایک بڑا سیاسی ریلیف بھی ہے ۔ایک بڑا سیاسی معرکہ چیرمین سینٹ کے انتخاب کا ہے ۔ دیکھنا ہوگا کہ اس بڑے سیاسی معرکہ میں آصف زرداری کی سیاسی چالیں کس حد تک اپنا سیاسی جادو دکھاتی ہیں او رکیسے وہ چیرمین سینٹ کے انتخاب میں اپنا امیدوار جتوانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ اگر واقعی آصف زرداری کا سیاسی جادو سینٹ کے چیرمین کے انتخاب میں چلتا ہے تو یہ واقعی حکومت کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ ہوگا۔
آصف زرداری نے سینٹ کے انتخابات سے قبل براہ راست پی ڈی ایم کی طرف سے ضمنی وسینٹ انتخابات کے بایکاٹ کی حکمت عملی کی عملا مخالفت کی تھی ۔ان کے بقول بایکاٹ کی پالیسی ہماری نہیں اور ہمیںکسی بھی صورت میں سیاسی میدان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے اور اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اس کا براہ راست فائدہ ہمارے سیاسی مخالفین کو ہی ہوگا ۔آصف زرداری کے بقول ہمیں بڑی سیاسی مہم جوئی یا ٹکراو کی پالیسی یا سیاست میں الجھنے کی بجائے تحمل سے آگے بڑھنا ہوگا ۔وہ اس پالیسی کے حامی ہیںکہ حکومت کو پہلے مختلف محاذوں پر کمزور کرناہوگا اور پھر کسی بڑے حملے کی تیاری کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی ۔اسی بنیاد پر وہ اسمبلیوں سے اجتماعی طور پر استعفوں کی سیاست کی بھی کھل کر مخالفت کرتے رہے ہیں۔آصف زرداری کا موقف تھا کہ ہمیں تبدیلی کا سفر مرکز کی بجائے عملی طور پر پنجاب سے کرنا ہوگا ۔ ان کے بقول اگر ہم پنجاب میں عمران خان کی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوگئے تو اس کے بعدنہ صرف عمران خان حکومت کو بڑے دباو میں لایا جاسکے گا بلکہ مرکز کی سطح پر عمران خان کی حکومت کو گرانا زیادہ آسان ہوگا ۔
اسی نکتہ کو بنیاد بنا کر اب پی ڈی ایم کا اگلہ محاذ پنجاب میں پی ٹی آئی اور عثمان بزدار کی حکومت کا خاتمہ ہے ۔اس کے لیے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں بشمول پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا بڑا انحصار مسلم لیگ ق یا چوہدری برادران پر ہے ۔کیونکہ اگر واقعی پنجاب میں پی ڈی ایم نے حکومت کو تبدیل کرنا ہے تو یہ کام چوہدری برادران کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا ۔ابتدائی طورپر بلاول بھٹو اور چوہدری برادران کی باہمی ملاقات ہوئی ۔ اس ملاقات میں بلاول بھٹو نے چئیرمین سینٹ کے انتخاب میں سیاسی مدد مانگی ، مگر چوہدری برادران نے واضح طورپر ان کی سیاسی حمایت کرنے سے انکار کردیا ۔چوہدری برادران کے بقول ہم حکومت کے اتحادی ہیں او ران کے سیاسی فیصلوں کے ساتھ ہی کھڑے ہیں ۔جہاں تک پنجاب میں تبدیلی کا تعلق ہے تو پہلا سوال یہ ہی اٹھتا ہے کہ اس تبدیلی کے عمل سے چوہدری برادران کو کیا حاصل ہوسکے گا۔ کیونکہ اگر چوہدری برادران کو حکومت کی تبدیلی سے وزارت اعلی نہیں ملنی تو وہ کیونکر مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کی حمایت کریں گے ۔شریف برادران کسی بھی صورت میں پنجاب کی وزارت اعلی چوہدری برادران کو نہیں دیں گے کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ ایسی صورت میں چوہدری پرویز الہی وزیر اعلی بن کر نئی سیاسی طاقت حاصل کرسکتے ہیں ۔ویسے بھی چوہدری برادران وزیر اعلی عثمان بزدار سے کافی مطمن نظر آتے ہیں عمران خان کے بعد پرویز الہی ہی عثمان بزدار کی سیاسی طاقت بھی ہیں ۔
پی ڈی ایم نے کچھ عرصہ سے اس تاثر کو نمایاں کیا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ اب کافی حد تک نیوٹرل ہوگئی ہے اوراس نے عمران خان کی آندھی سطح پر جاری حمایت واپس لے لی ہے ۔پی ڈی ایم سمجھتی ہے کہ اس خیال کو سیاسی محاذ پر زیادہ مضبوطی سے پیش کرنا ہوگا کہ موجود ہ صورتحال میں اسٹیبلیشمنٹ نے خود کو نیوٹرل کرلیا ہے یا اسٹیبلیشمنٹ عمران خان کی حمایت کے بعد متبادل کی تلاش میں ہے یا ہم ہی ان کے متبادل ہیں ۔پی ڈی ایم کافی حد تک سمجھ چکی ہے کہ براہ راست اسٹیبلیشمنٹ کی مخالفت سے وہ طاقت یا اقتدار کے کھیل میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ۔اگر پی ڈی ایم نے طاقت کے کھیل میں کچھ کرنا ہے تو اسے اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت کرکے ہی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سیاسی سطح پر راستہ تلاش کرنا ہوگا ۔پی ڈی ایم اسی نکتہ کو بنیاد بنا کر اب توپوں کا رخ محض عمران خان تک محدود کرنا چاہتی ہے تاکہ اسٹیبلیشمنٹ کو یہ پیغام دیا جائے کہ ہم ان کے ساتھ مفاہمت کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن اگر پی ڈی ایم کو محسوس ہوتا ہے کہ مفاہمت کا راستہ نہیں نکل رہا او رہماری تمام حکمت عملی کوئی نتیجہ نہیں دے سکےں تو پھر اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف دوبارہ سرگرم ہوا جاسکتا ہے ۔
پی ڈی ایم میں نواز شریف ، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن فوری انتخابات کے حامی ہیں ۔جبکہ آصف زرداری اور خود شہباز شریف بھی اس سوچ کے حامی نہیں لگتے۔آصف زرداری نے جو تحریک عدم اعتماد کا فارمولہ پیش کیا تھا اس میں بھی حکومت کی تبدیلی یا نئے انتخابات کی جگہ وزیر اعظم کی تبدیلی اور سیاسی نظام یا اسی حکومت کو چلانے سے جڑا ہوا تھا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں پی ڈی ایم میں فیصلہ کن حیثیت آصف زرداری نے حاصل کرلی ہے ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آصف زرداری نے کمال ہوشیاری سے مریم نواز ، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کومجبور کردیا ہے کہ وہ ان کے فیصلوں کے ساتھ ہی آگے بڑھیں ۔اس بات کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ہمیں آنے والے کچھ ہفتوں میں پی ڈی ایم کی اپنی سیاست سے جڑے داخلی تضادات نمایاں طور پر دیکھنے کو ملیں اور خاص طور پر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن دونوں بڑی جماعتوں کی پالیسی سے زیادہ خوش نہیں ۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پی ڈی ایم نے جو لانگ مارچ کرنا تھا او ران کے بقول یہ لانگ مارچ اس وقت تک اسلام آباد میںموجود رہے گا جب تک حکومت کا خاتمہ نہیں ہوجائے گا ۔ کیا ایسا لانگ مارچ کا فیصلہ آنے والے کچھ دنوں میں پی ڈی ایم کرسکے گی ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ممکن ہو کہ لانگ مارچ ہو لیکن یہ ایک یا دو دن سے زیادہ کا نہیں ہوگا اور اس کی حیثیت علامتی ہی ہوگی او راسے مہنگائی یا معاشی بدحالی کے نام سے بھی جوڑا جاسکتا ہے ۔اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ پی ڈی ایم اپنے جلسے مختلف شہروں میں کرکے اپنا سیاسی میدان سجاتی رہے گی او راسی بنیاد پر حکومت کی مخالفت بھی ہوگی ۔لیکن کیا پی ڈی ایم کوئی بڑی عوامی تحریک چلاسکے گا تو اس کا امکان بہت کم نظر آتا ہے اور یہ ہی حکومت کے لیے بھی امید کا پہلو ہے کہ پی ڈی ایم کسی بڑی سیاسی تحریک کو پیدا کرنے کا نہ تو شوق رکھتی ہے اورنہ ہی اس میں وہ جان ہے کہ وہ ملک گیر تحریک چلاسکے ۔
اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ پی ڈی ایم زیادہ سے زیادہ دباو حکومت پر بڑھانے کے لیے محاز آرائی کی سیاست کو زندہ رکھے گی ۔اس کے لیے تواتر سے حکومت پر سیاسی حملے بھی کیے جائیں گے اور یہ تاثر بھی دیا جائے گا کہ بس اب حکومت جانے والی ہے ۔کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اگر اس حکومت کو کمزوریا داخلی سطح پر غیر مستحکم کرنا ہے تو ان کو روزانہ کی بنیاد پر مختلف مسائل یا ٹکراو کی سیاست میں الجھا کر رکھنے میںہی پی ڈی ایم کا سیاسی مفاد جڑا ہوا ہے ۔
فیس بک کمینٹ