کتاب کا عنوان دیکھتے ہی امجد اسلام امجد کی ایک معروف نظم کا وہ مصرع گونجتا ہے
جو کچھ بھی ہے محبت کا پھیلاو ہے۔ ہمارے جاوید یاد شاعر تو ہیں سفرنامہ نگار اور کالم نگار ہیں اور کرسمس سے بھی پہلے وہ اپنی اور اپنے احباب کی کتب اپنی زنبیل میں بھر کے مستحقین اور غیر مستحقین کو عطیہ کرتے ہیں ۔تخلیق کی جوت ان کی رگ و پے میں سمائی ہے وہ کہہ تو دیتے ہیں
تو مرے ارد گرد رقص کرے
میں پپیہے کی بولیاں بولوں
مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ خوشی ، خوبصورتی کی دشمن ملائیت نے ہمارے معاشرے کا کیا حشر کر رکھا ہے
میں اپنے معاشرے کا کیا رونا روں
جہاں بچی اکیلی گھر سے نہیں نکل سکتی
اور جہاں بچے آنکھ مچولی کھیلنا بھول گئے
جاوید عام طور پر شیریں بیاں ہیں مگر وہ ‘یاد’ کو تخلص بنا کے ان تکلیف دہ مناظر کو بھلا نہیں سکتے جب ان کی بستیوں کو حملہ آوروں نے جلایا تھا وہ سکھ نہیں تھے صیہونی بھی نہیں تھے اسی مملکت کے وہ شہری تھے جو اسلام کا بول بالا کرنا چاہتے تھے
پل میں بستی اجاڑ دیتے ہو
اپنا غصہ۔ اتار دیتے ہو
وہ جو بستی کو شاد کرتے رہے
ان کو بھی ساتھ مار دیتے ہو
اور کیا اس بچی کی ماں سے اپیل کا مزید ترجمہ اور تشریح کی جائے
اماں مجھ کو ساتھ نہ لاو
مالک مجھ کو گھورتا ہے
اماں مجھ کو گھر نہ چھوڑو
یہاں بھی مالک گھورتا ہے
مجھ کو بس تم
زہر ہی دے دو
یا پھر غزلیں دیکھیں تو یہی مضامین ہیں
وہ اپنے شہر کی گلیاں بھی بھولتا جائے
کہ سارے کھیل ہی اب گھر میں کھیلتا جائے
۔۔
اب نہ جھرنے اور نہ پانی
ان کارخ بھی موڑ گیا وہ
یہ کتاب گردوپیش پبلی کیشنز ملتان لاہور اسلام آباد اور کراچی نے شائع کی ہے اچھے کاغذ اور حسن طباعت کے ساتھ کتاب منگوانے کے لئے رابطہ نمبر لکھا ہے
03186780423
اور آپس کی بات ہے شاعر سے رابطہ کریں گے تو فائدے میں رہیں گے
فیس بک کمینٹ