کہانی کا لفظ جہاں کہیں بھی دیکھتا یا پڑھتا ہوں تو کچھ دیر کے لیے رک جاتا ہوں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے کہانی سننا،پڑھنا،دیکھنا اور لکھنا اچھا لگتا ہے۔کہانی میں انسان اپنے آپ کو تلاش کرتا ہے۔بچپن سے لے کر آج تک ہم کسی نہ کسی کہانی کا کردار رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب مجھے کہیں پر اچھی کہانی دکھائی دیتی ہے تو میں اس میں اپنا آپ تلاش کرتا ہوں۔اس مرتبہ میرے سامنے کہانیوں کی جو دو کتابیں رکھی ہیں۔ان کا نام رضی الدین رضی نے "کہانیاں رفتگان ملتان کی”
رکھا ہے۔سرورق پر جو تصاویردیکھنے کو ملیں ، تو معلوم ہوا کہ یہ وہی لوگ ہیں جن سے بات کر کے ہم اپنی کہانی سنایا کرتے تھے ان کی کہانی سنا کرتے تھے۔پھر ایک دن وہ خود کہانی ہو گئے۔ان کی کہانی ہم جیسوں کے پاس جب آئی تو ہم نے قلم کے ذریعے ان کی کہانیاں لکھنی شروع کی۔1980 سے لے کر 2025 تک اس شہر کے نامور لوگوں کی جتنی کہانیاں میں نے اور رضی نے لکھی ہیں شاید ہی کسی نے لکھی ہوں۔
رضی کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے لکھے کو بہت جلد کتابی شکل میں لے آتا ہے۔جبکہ میرا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔کتابیں تو میں بھی بہت جلد لاتاہوں۔لیکن میں ملتان سے باہر نکل کر ان لوگوں کی کہانیاں لکھتا ہوں۔جو مجھے اچھے لگتے ہیں۔ایسے لوگوں کی کہانیوں کی کتاب "نایاب لوگ”کے نام سے آیا ہی چاہتی ہے۔جبکہ رضی مسلسل ملتان پر کام کر رہا ہے۔یوں سمجھ لیں کہ وہ ملتان کی ادبی تاریخ کا انسائیکلوپیڈیا مرتب کر رہا ہے۔اس کی تازہ کتب "کہانیاں رفتگان ملتان کی”
ایک ایسا شاندار کام ہے۔جو 1968 سے لے کر 2018 تک کے رفتگاں کی کہانیاں لیے ہوئے ہے۔ اگر ہم ان دونوں کتابوں کی فہرست کو پڑھیں تو یقین کیجئے کلیجہ ہاتھ میں آجاتا ہے کہ کیسے کیسے لوگ ہم سے جدا ہو گئے۔اور اگر ہم سرورق پر نگاہ ڈالیں۔تو ہمیں تو طفیل ابن گل، بشری رحمان، حزیں صدیقی ،مرزا ابن حنیف، قاسم خان، پروفیسر حسین سحر، شعیب الرحمن، ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر عاصی کرنالی، ثمربانو ہاشمی، حیدر گردیزی، ایاز صدیقی، عمر کمال خان، عارف محمود قریشی، جعفر شیرازی، انور امروہوی، ولی محمد واجد، مقصود زاہدی، حق نواز خرم، قسور گردیزی،بیدل حیدری، اقبال حسن بھپلا،صادق علی شہزاد، ممتاز العیشی،منیر فاطمی، ڈاکٹر خیال امروہوی، کیف انصاری، اطہر ناسک ،اقبال ساغر صدیقی، اسلم یوسفی، نذر بلوچ،زوار حسین، خان رضوانی، ارشد ملتانی، قمر الحق قمر اور دیگر پیارے نظر آتے ہیں لگتا ہی نہیں کہ وہ ہم سے دور چلے گئے رضی نے ان پر قلم اٹھا کر ان کو زندہ کر دیا۔ان مضامین کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔
رضی نے ان شخصیات کے ساتھ چونکہ بہت سا وقت صرف کیا۔اس لیے ان شخصیات کے بے شمار نئے پہلو سامنے لے آیا جو ہم سے پوشیدہ تھے۔وہ جانے والوں کے لیے اس انداز سے لکھتا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم بچپن میں ریڈیو کے ساتھ بیٹھ کر کہانی سنا کرتے تھے۔بچپن کی سنی ہوئی کہانیوں میں اور رضی کی کہانیوں میں یہ فرق ہے۔کہ بچپن کی کہانیاں سن کر ہم خوش ہوا کرتے تھے جبکہ رضی کی کہانی پڑھ کر ہم اداس اور ہماری انکھیں نم ہو جاتی ہیں۔میرزا ادیب نے بالکل درست کہا تھا کہ اس کی شاعری میں نثر ہے اور نثر شاعری ہے۔
رضی کی یہ دونوں کتب ملتان کی وہ تاریخ ہے۔جو کوئی اور نہیں لکھ سکتا تھا۔یہ بھاری پتھر صرف وہی اٹھا سکتا ہے۔سو اس نے یہ مشکل کام نم آنکھوں سے لیکن بڑی سہولت سے کیا۔یہ دونوں کتب گردوپیش نے شایع کی ہیں۔پندرہ سو روپے میں یہ کتابیں ہرگز مہنگی نہیں۔
تو فوری رضی سے رابطہ کریں۔ اس سے پہلے کتاب کا یہ ایڈیشن ختم ہو جائے۔
رابطہ نمبر
03186780423
فیس بک کمینٹ