سید جمال نقوی کی کتاب ’’ چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں‘‘ Leaving Left Behind کا ترجمہ سانجھ لاہور نے 2018 میں شائع کیا ۔ عام طور پر خواجہ ناظم الدین کا یہ پہلو یا محمد علی بوگرہ کا یہ روپ سامنے نہیں آتا اور نہ ہی یہ طالب علموں کی تحریک کے نتیجے میں جامعہ کراچی ایک تدریسی یونیورسٹی بننے کا ماجرا ۔ ایک اقتباس دیکھئے
” اس واقعے نے مجھے گرفتاری کا پہلا تجربہ کروا دیا کیونکہ اس کے بعد میں کئی بار اور پھر ایک طویل قید و بند میں جانے والا تھا ۔
وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین ایک نرم دل انسان تھے ، اتنے نرم دل کہ بطور سر براہ حکومت غیر موثر ہوکر رہ گئے تھے۔ انہوں نے بالآخر اس معاملے میں مداخلت کی ۔ 8 جنوری کو میکلوڈ روڈ میں بیٹھ کر ہم اس سارے معاملات پرغوروخوض کررہے تھے ۔ ہمارے جذبے بلند تھے، حکومت نے چند ہی گھنٹوں میں تمام طالب علموں کو رہا کر دیا تھا اور ہم اسے اپنی بڑی کامیابی سمجھتے تھے ۔ جب ہم اپنے مستقبل کے اقدامات پر غور کر رہے تھے تو ہمارے پاس دو گاڑیاں آ کر رکیں ، کچھ افراد کاروں سے اترے اور انہوں نے کہا کہ ہم وزیراعظم کے اسٹاف افسر ہیں اور وزیر اعظم آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ ہمارے لیے یہ دلچسپ صورت حال تھی کہ ہم سرور کو ان کے ساتھ ایسے گفتگو کرتے دیکھ رہے تھے جیسے وہ وزیر اعظم کے مقابلے کا عہدیدار ہو ۔ ہم نے مطالبہ کیا کہ ہمارے جانے کے لیے گاڑیاں منگوائی جائیں ۔ چنانچہ وہاں سے 8 گاڑیاں آ گئیں اور ہم شان سے بیٹھ کر ملک کے بڑے باس سے ملنے جار ہے تھے ۔
وز یر اعظم کے دفتر میں بھی سرور کا انداز دیکھنے کے لائق تھا ۔ اس کا رویہ انسپائرنگ تھا ۔ ہمارے لیے ریفریشمٹ لائی گئی، لیکن سرور نے وزیر اعظم کی طرف دیکھا اور کہہ دیا کہ ہم یہاں چاۓ پینے کے لیے نہیں آۓ ۔ ہمارے آنے کا ایک مقصد ہے ۔وزیر اعظم نے ضبط سے کام لیتے ہوئے ہمیں سگریٹ پینے کی آفر کی۔ آج کی طرح اس زمانے میں سگریٹ کا کش لگانا براخیال نہیں کیا جاتا تھا لیکن سرور نے اپنی جیب سے بیڑی نکال کر ایک شو مین شپ کے انداز سے لگایا ۔ بیڑی سگریٹ کی ایک سستی سی شکل ہوتی ہے ۔ اس کے بعد سرور نے جو کیا وہ ہماری توقع کے بالکل خلاف تھا ۔ وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور وزیراعظم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا، مسٹر ناظم ، تم اس وقت ملک میں بے حد غیر مقبول ہو چکے ہو اگر 24 گھنٹوں میں ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو ہم پورے ملک میں ہڑتال پر چلے جائیں گے ۔
یہ سب کچھ ایک ڈرامے کی طرح تھا ۔ ایک ایسا نو جوان جو ابھی 20 سال سے کچھ زیادہ ہوگا ۔ پھر بھی وزیر اعظم نے مشفقانہ لہجہ میں کہا کہ طلبا کو کمیونسٹ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ آپ کے احتجاجی جلسوں میں سرخ جھنڈے دیکھے گئے ہیں ۔ سرور نے اس کا بھی مناسب جواب دیا اور کہا وہ سرخ جھنڈے نہیں تھے ، وہاں روڈ کی کھدائی کا کچھ کام ہورہا تھا اور وہ سرخ کپڑوں کو بطور زیرتعمیر نشان لگایا ہوا تھا ۔ طلبا نے ان کو وہاں سے اٹھا لیا اور ان کو لہرانے لگے کیونکہ ہمارے پاس اپنے بینر کم تھے ۔ اگرچہ اس میں مکمل سچائی نہیں تھی لیکن سرور کی طرف سے یہ ایک موثر جواب تھا۔
وزیر اعظم نے ہمارے مطالبات تسلیم کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ ہڑتال کے ختم کرنے کا اعلان کریں ۔ سرور نے اصرار کیا کہ اس رضامندی کا اعلان ریڈیو پاکستان کے اگلے بلیٹن سے خبر کے ذریعے کیا جاۓ جو اگلے چند منٹوں بعد تھا ۔ حکومت کی طرف سے ایسا ہی کیا گیا اور ہم رات کے بارہ بجے کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہوئے ، جی بھر کر ہم نے وہاں کھایا پیا بھی ۔
اگرچہ حکومت نے اپنا عہد وفانہ کیا لیکن اس دن کے بعد شفیق کی بجاۓ سرور میرا ہیرو بن گیا ۔ وہ ڈی ایس ایف کا سیکرٹری اور صدر بھی رہا ، اپنی گریجویشن کے بعد اس نے بطور ڈاکٹر کئی صحت کے اداروں میں ملازمت کی ۔ پھر اس نے گلبہار میں اپنا کلینک کھول لیا ۔ اور وہاں چالیس سال تک پریکٹس کی ۔ جہاں تک سیاسی پوٹینشل کا تعلق ہے میں نے اپنی زندگی میں اس سے بہتر صلاحیت والے لوگ بہت کم دیکھے ہیں ۔ جن کے اندر ٹائمنگ اور سیاسی کیلکولیشن کرنے کی اتنی صلاحیت ہو ۔ اس کی فیملی مجبوریاں تھیں کہ اس نے فل ٹائم سیاست چھوڑ دی لیکن وہ پاکستان میڈیکل ایسوی ایشن بنانے میں پیش پیش تھا جس کا وہ دو بار جنرل سیکرٹری رہا اورترقی پسند سیاست میں اپنا رول ادا کرتا رہا ۔
جہاں تک ڈی ایس ایف کے مطالبے کا تعلق تھا ، کراچی کو ایک مکمل یونیورسٹی مل گئی ۔ اگرچہ ناظم الدین کو جلد ہی ہٹا دیا گیا اور محمد علی بوگرہ آ گئے ، بوگرہ نے ہمیں باقاعدہ یو نیورسٹی کا نقشہ دکھایا جہاں اس کا کیمپس بننا تھا ۔ اور اس کی تعمیر کے آرڈر دے دیے گئے ۔ یہ ڈی ایس ایف کی فتح تھی ۔ اگرچہ اسے اپنے کئی ساتھیوں کی زندگی کی قربانی دینے کے بعد حاصل کیا گیا ۔ کئی سال تک جلسے اور جلوسوں سے کراچی میں 8 جنوری کا دن ان طلبا کی شہادتوں کے طور پر منایا جاتا رہا اوران ریلیوں کے آگے خون آلودا یک جھنڈا ضرور ہوتا تھا ۔
کراچی یونیورسٹی نے ایک ٹیچنگ یونیورسٹی کے طور پر کام شروع کردیا اور اس میں محدود پیمانے پر ریسرچ کی سرگرمیاں ہونے لگیں ۔
28 جنوری 2023
فیس بک کمینٹ