چودہ پندرہ سال پرانی بات ہے میں بچوں کے ساتھ سندھ گیا۔ مقصد صرف سیر کرنا تھا اور بچوں کو سندھ کی ثقافت اور تاریخ سے آگاہ کرنا تھا۔ سفر بذریعہ سڑک تھا لہٰذا جاتے جاتے انہیں بھونگ شریف کی اپنی مثال آپ چھوٹی سی بھونگ مسجد دکھانے کے لیے صادق آباد سے احمد پورلمہ اور وہاں سے بھونگ کی طرف گاڑی موڑ لی۔ راستے میں احمد پور لمہ رک کر اپنے سکول میں بطور Pupil Teacher آنے والے استاد ممتاز عامر کا پتا کیا۔ ممتاز عامر تب ایجوکیشن کالج ملتان میں بی ایڈ کر رہے تھے۔ بی ایڈ کے طلبہ کو دوران تعلیم کچھ دنوں کے لیے بطور زیر تربیت استاد مختلف سکولوں میں بھیجا جاتا تھا۔ وہ وہاں معین عرصہ کے لیے پڑھاتے پھر ان کا امتحان ہوتا‘ اس ٹیکنیکل امتحان کے نمبران کے فائنل امتحان میں شامل کر کے ان کا نتیجہ بنایا جاتا۔
محتاز عامر بے حد عمدہ استاد تھے لیکن شاید وہ اپنی اس خداداد صلاحیت سے آگاہ نہیں تھے یا یہ ان کی ترجیح نہیں تھی‘ انہوں نے بی ایڈ کرنے کے بعد ٹیچر کی نوکری کرنے کے بجائے کراچی یونیورسٹی میں شعبہ جرنلزم میں داخلہ لے لیا۔ میری ان سے خط و کتابت چلتی رہتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ وقت نے آہستہ آہستہ اپنا کام دکھانا شروع کر دیا۔ پہلے خطوط میں وقفہ آیا اور پھر بالکل ہی ختم ہو گیا۔ عرصے بعد احمد پور لمہ سے گزرا تو محتاز عامر کی یاد آئی۔ ایک جگہ رک کر ان کا دریافت کیا۔ چھوٹا سا قصبہ ان سے بخوبی آگاہ تھا۔ پہلے ہی شخص نے بتایا کہ وہ آج کل وکالت کرتے ہیں اور ہفتے میں دو دن احمد پور لمہ ہوتے ہیں اور بقیہ دن بہاولپور میں۔ پھر اس نے بتایا کہ آج وہ بہاولپور ہیں۔ اس خلیق آدمی نے کسی سے مجھے ان کا موبائل نمبر لے کر دیا۔ میں نے فون ملایا تو وہ قریب تیس برس بعد فون پر میرا نام سنتے ہی پہچان گئے۔ تاسف کا اظہار کیا کہ وہ اس وقت احمد پور لمہ میں نہیں ہیں۔ پھر ملاقات کا وعدہ ہوا۔ یہ ملاقات اب تک نہیں ہو پائی تاہم فون پر ابطہ دوبارہ سے قائم ہے۔
بھونگ مسجد کی خوبصورتی اور پتھر کے کام کی باریکی کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ ماسٹر عبدالحمید کمبوہ کی زیر نگرانی تعمیر ہونے والی مسجد پچاس سال تک مسلسل زیر تعمیر رہنے کے بعد غالباً 1982ء میں مکمل ہوئی۔ اسے بعد ازاں آغا خاں ایوارڈ برائے آرکیٹییکچر سے نوازا گیا۔ مسجد سے متصل رئیس غازی محمد کا گھر ہے جو اس مسجد کو بنوانے والے تھے۔ اللہ جانے اس بات میں کتنی حقیقت ہے تاہم مشہور یہی تھا کہ رئیس غازی کو یقین تھا کہ جس روز یہ مسجد مکمل ہو گئی وہ اللہ کو پیارے ہو جائیں گے‘ لہٰذا اس مسجد کی تعمیر کو کامل پچاس سال جاری رہی۔ اس دوران رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا تو یہ تعمیر ان کے بیٹے سابق وزیر رئیس شبیر احمد نے جاری رکھی۔ مراکش میں ملنے والے آغاز خان ایوارڈ کے ساتھ مراکش کے بادشاہ کی جانب سے دی جانے والی نقد رقم رئیس شبیر احمد نے لینے سے انکار کر دیا۔ مسجد کے ساتھ لائبریری، مہمان خانہ، مدرسہ، ہوسٹل اور خواتین کی مسجد بھی ہے۔ پتھر کے اندر پچی کاری کے ذریعے بنائے جانے والے انتہائی نفیس اور باریک نقش و نگار حیران کن ہیں۔ رحیم یار خان سے قریب پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر جی ٹی روڈ سے ہٹ کر واقع یہ مسجد ایسی ہے کہ اس کی دوسری مثال ملنی مشکل ہے لیکن بہت کم لوگوں کو اس عدیم النظیر مسجد کا علم ہے۔
ہمارا اگلا پڑاؤ سکھر تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ سکھر بیراج کے دائیں کنارے پر واقع رائس کینال اور دادو کینال کے درمیان میں پی آئی اے کا ہوٹل ”انٹر پاک ان‘‘ اس علاقے کا سب سے شاندار ہوٹل تصور ہوتا تھا پھر اس کے ساتھ بھی وہی ہوا جو پی آئی اے کے ساتھ ہوا۔ ہم لوگ سکھر شہر میں بننے والے نئے ہوٹلوں میں سے ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔ مہران سنٹر کے سامنے سیڑھیاں چڑھ کر معصوم شاہ کے منارے پر چڑھے۔ وہاں سے دریائے سندھ اپنی پوری شان و شوکت سے گزرتا نظر آتا ہے۔ معصوم شاہ کے منارے کے ساتھ ہی میر محمد معصوم شاہ بکھری کی قبر بھی ہے۔ میر معصوم شاہ مغل شہنشاہ اکبر کی فوج کے جرنیل تھے اور انہوں نے سبی (بلوچستان) کو فتح کر کے مغل سلطنت کا حصہ بنایا۔ بعد ازاں وہ سبی اور سندھ کے گورنر رہے۔ مینار قریب سو فٹ بلند ہے اور ایک ٹیلے پر ہونے کی وجہ سے اس کی حقیقی بلندی بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ 1923ء میں بننے والا لائیڈ بیراج جو آج کل سکھر بیراج کہلاتا ہے۔ سکھر شہر اور روہڑی کے درمیان 1889ء میں بننے والا قدیم پل ”کینس ڈاؤن برج‘‘ اور اس کے ساتھ دریائے سندھ میں ایک چھوٹے سے جزیرے پر بنا ہوا ہندوؤں کا مقدس اور قدیم مندر سادھو بیلا دکھائی دیتے ہیں۔ اس مندر پر جانے کے لیے کشتی استعمال کرنا پڑتی ہے اور غیر ہندوؤں کے لئے ڈپٹی کمشنر سے اجازت نامہ لینا پڑتا تھا۔
خیرپور میں تالپوروں کا محل بھی عجب کسمپرسی کا شکار ہے ۔ میر سہراب کا تعمیر کردہ ”فیض محل‘‘ دو سو سال سے زیادہ قدیم ہے۔ خیرپور کے آخری حکمران میر علی مراد خود کراچی میں رہائش پذیر ہیں اور محل عملی طور پر تقریباً بند اور غیر آباد ہے۔ چند نوکر ہیں جو اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ہم وہاں پہنچے تو دروازہ بند تھا۔ ایک چھوٹے سے بغلی دروازے سے اندر جھانکا تو دو چار لوگ نظر آئے۔ دیکھنے کی اجازت مانگی تو صاف انکار ہو گیا۔ پھر ایک بزرگ سے ملازم نے ترس کھا کر پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ بتایا ملتان سے۔ اس نے بکمال مہربانی اندر آنے کی اجازت دی اور کہا کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں۔ ہم نے وعدہ کر لیا۔ سامنے سرخ رنگ کی ایک عظیم الشان عمارت تھی جس کے ستون پیلے رنگ کے تھے۔ کہن سالی اور خستہ حالی کے باوجود عمارت کی ایک ایک اینٹ زبان حال سے کہہ رہی تھی کہ کبھی یہ عمارت اپنی مثال آپ ہوتی ہوگی۔ خوبصورت اور پررونق۔ نوکروں چاکروں اور ہرکاروں کی آوازوں سے بھرپور۔ میر سہراب خان جیسے شاندار حاکم اور اس کے مصاحبوں سے بھری ہوئی۔ ریاست خیر پور کے ماتھے کا جھومر۔ پھر سب کچھ ماضی ہو گیا۔ ریاست پاکستان میں ضم ہو گئی۔ پہلے کمشنری یعنی ڈویژن بنا۔ ہم نے ابتدائی جماعتوں میں خیرپور کو ڈویژن کے طور پر یاد کیا تھا۔ پھر سکھر ڈویژن بن گیا اور خیرپور اس کا ضلع ٹھہرا۔
فیض محل کے مرکزی ہال میں داخل ہوں تو اس کی وسعت سے بندہ مبہوت سا ہو جاتا ہے۔ دیواروںپر سجی ریاست خیرپور کے سابقہ حکمرانوں کے پورٹریٹ۔ کبھی اس ہال میں دربار لگتا ہوگا مگر اب یہ عالم تھا کہ انتہائی بیش قیمت اور نادر روزگار قسم کے قالین دوائی چھڑک کر لپیٹ دیئے گئے تھے۔یک طرف ایک ڈائننگ ٹیبل پڑی تھی۔ بلامبالغہ ستر اسی فٹ لمبی۔ اس میز کی ٹاپ شیشے کی تھی اور بغیر جوڑ کا شیشہ تب بحری جہاز کے ذریعے انگلینڈ سے آیا تھا۔ خدا جانے یہ میز آخری بار کھانے کے لیے کب استعمال ہوئی ہوگی مگر اب یہ میز اور اس کے گرد پڑی کرسیاں مہمانوں کے بجائے گرد سے اٹی ہوئی تھیں۔ بھارت میں ایسے محلات اور خاص طور پر ریاست جے پور (سابقہ) کے شہر جے پور میں واقع محلات کو آج کل سیون سٹار ہوٹل میں تبدیل کیا جا چکا ہے اور دنیا بھر کے سیاح ان تاریخی محلات میں قیام کرتے ہیں اور تاریخ کے جھروکوں میں رات گزارتے ہیں۔
مکمل خود مختار ریاست خیرپور کے حاکم میر علی مراد تالپور کو 1843 ء میں چارلس جیمز نیپئرنے میانی کی فیصلہ کن جنگ میں شکست دی۔ میر صاحب تو جنگ سے قبل ہی دل چھوڑ گئے تھے تاہم سندھ کی فوج کی لاج ہو شو شیدی نے رکھی اور صبح سے رات گئے تک تلوار چلاکر شہید ہوا۔ ایک طرف تلواریں تھیں اور دوسری طرف بندوقیں اور توپیں۔ میانی جنگ میں شکست کے ساتھ ہی سندھ کی تاریخ کا دھارا بدل گیا۔ انگریز کی حکمرانی پر اس جنگ کے نتیجے نے مہر ثبت کر دی۔ ریاست خیرپور انگریز کی باج گزار ریاست کے طور پر 1947 ء تک قائم رہی اور پھر پاکستان میں شامل ہو گئی۔ نواب حکومت پاکستان کا وظیفہ خوار ٹھہرا۔
آج کل نواب علی مراد تالپور ”مہر انو وائلڈ لائف سینکچری‘‘ کے نواب ہیں۔ زرعی زمین، جنگل اور شکارگاہ پر مشتمل اس گیم ریزرو میں جھیل بھی ہے۔ بلامبالغہ ہزاروں جانور اس محفوظ علاقے میں جنگل کی آزاد زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں کالے ہرن، انڈین غزال اور ہوگ ڈیئر کے علاوہ جنگلی سور، گیدڑ اور جھیل پر آنے والے لاکھوں مہمان پرندے ہیں۔ اگر یہاں جنگل سفاری شروع کی جائے تو ایک شاندار ٹورسٹ اٹریکشن وجود میں آ سکتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ