” الیکشن کے دنوں میں ایک دن ہم المرتضیٰ ہاؤس میں ووٹوں کی فہرست کاربن پیپر ڈال کر کاپی کر رہے تھے ( ان دنوں فوٹو اسٹیٹ متعارف نہیں ہوئی تھی) بھٹو صاحب باہر سے خاکی شلوار قمیض میں ملبوس پسینے میں ڈوبے ہوئے آپہنچے اور ہم پانچ سات طالب علموں کو کام کرتے دیکھا تو وہیں ہمارے ساتھ بیٹھ گئے اور اپنے نوکر سے پوچھنے لگے کہ ان لوگوں نے کھانا کھایا ہے ؟ اس کی طرف سے انکار میں جواب ملنے پر فوراً اسے حکم دیا کہ ان تمام لوگوں کے لیے بندوبست کرو۔ جب کھانا آیا تو وہ بھی ہمارے ساتھ فرش پر بیٹھ گئے اور کھانے میں بالکل اسی طرح شریک ہوگئے جس طرح سندھ یونیورسٹی کے طالب علم جامشورو پھاٹک پر ایک ہی کڑاہی میں کھاتے ہیں۔ ان کا یہ انداز مجھے بہت بھایا یہی وجہ ہے کہ بہت عرصے بعد جب مجھے ان کی پھانسی کی اطلاع ملی تو مجھ پر غشی کے دورے پڑنے لگے اور اگلے کئی برس میں نے ایک عجیب بے کلی میں گزارے“
یہ اقتباس ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کی خود نوشت کے ایک باب سے لیا گیا ہے۔ یہ خود نوشت راولپنڈی سے شائع ہونے والے موقر ادبی جریدے ” لوح “ میں شائع ہو رہی ہے۔
” لوح “ ایک ضخیم ادبی جریدہ ہے جسے ادب سے محبت کرنے والے ایک دیوانے ممتاز احمد شیخ شائع کرتے ہیں۔ تقریباً ساڑھے چھے سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس جریدے نے چند برسوں میں دنیائے اردو ادب میں اپنی پہچان بنا لی ہے اب بڑے سے بڑا اسٹار ادیب شاعر بھی لوح میں شامل ہونا ضروری سمجھتا ہے۔
لوح ایک ایسی ادبی سکرین ہے جس پر ادب کے درخشندہ ستارے جگمگاتے دکھائی دیتے ہیں۔
میں خود چونکہ ادبی پرچہ شائع کرتا ہوں اور اچھی طرح سے واقف ہوں کہ جیب سے یا اپنی سیلری سے ادبی پرچہ شائع کرنا اور پھر اسے مفت اہلِ قلم کو بذریعہ ڈاک پہنچاناایک دشوار کام ہے اور چند صفحات کا پرچہ بھی تواتر کے ساتھ نکالنا اس دور میں سراسر خسارے کا سودا ہے اور یہ سودا سودائی ہی کر سکتے ہیں۔ یہ دور پرنٹ میڈیا کا دور نہیں ہے۔ سوشل میڈیا نے پرنٹ میڈیا کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اخبارات تک موت کی سی ہچکیاں لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ادبی رسائل جرائد کون پڑھتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ فیس بک ، ٹویٹر اور وٹس ایپ کے ذریعے اپنی تخلیقات مع تصاویر آنا فاناً ساری دنیا تک پہنچانا آسان تر ہو چکا ہے۔ اب تو شاعر رسائل جرائد کو اپنی شاعری بھیجنے کی بجائے سوشل میڈیا پر چسپاں کرتے ہیں اور کمنٹس کی صورت میں نقد داد پاتے ہیں۔
ایک زمانے میں ادبی پرچے کی بہت ڈاک موصول ہوتی تھی اب یار لوگ پرچہ ملنے کی اطلاع تک نہیں دیتے حالانکہ یہ کام بھی نہایت آسان ہوچکا ہے۔ اصل میں لوگوں کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اب ایسے معاشرے میں کوئی سر پھرا ادبی جریدہ شائع کرتا ہے تو یہ از خود نہایت قابل تحسین کارنامہ ہے اور اس کی داد نہ دینا بد دیانتی ہے۔ ممتاز احمد شیخ تو ضخیم ترین پرچہ شائع کرتے بالکل ” تسیطر“ فنون ، اور راوی کی طرح ۔ حال ہی میں لاہور سے امجد طفیل ریاظ اور صفدر حسین نے ” استعارہ “ بھی شروع کیا ہے۔ ہم تو انہیں بھی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
ہم نے ” بجنگ آمد“ کو بند کر دیا ہے کہ اب ہمت جواب دے گئی تھی۔ جو احباب ادبی جرائد شائع کر رہے ہیں ہم ان کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔
تازہ لوح خاصے کی چیز ہے۔ یہ موسم کتابیں پڑھنے کا موسم ہے۔ ہماری ٹیبل پر کتابیں رسائل جرائد موجود ہیں۔
لوح جتنا پڑھا ہے بہت جانبدار اور ترو تازہ محسوس ہوتا ہے۔ حرف لوح میں ممتاز شیخ نے بجا ارشاد کیاہے کہ ” یہ زمینی حقیقت کسی کو کیسے بتائی جائے کہ رسالے کی تیاری میں مالی امور سے لے کر رسالے کی آخری سطر کی چھپائی تک میں جو مراحل درپیش رہتے ہیں جو محض ایک فرد کی ادب سے بے پناہ محبت کا شاخسانہ ہے۔ ممتاز احمد شیخ کو مادر عملی گورنمنٹ کالج سے جس قدر محبت ہے اس کا اندازہ ” راوی“ کی سی مشابہت پر مبنی ” لوح “ سے لگایا جاسکتا ہے۔ گوشہ اسد محمد خان میں ہمیں مبین مرزا کا مضمون بہت اچھا لگا شمس الرحمن فاروقی کا فیض پر جانبدار مضمون ہو یا فتح محمد ملک کا یوسف ظفر کی شاعری پر ، قاری پر شعری تفہم کے کئی دروا کرتا ہے۔
احسان اکبر کی نظم کی آخری سطریں دیکھئے:
شہر یار سوتا ہے
باپ کتنا ناداں ہے
سونے والے بچے کو
دیکھ دیکھ روتا ہے
علی محمد فرشی فہم جوزی، ایوب خاور سعادت سعید جواز جعفری انوار فطرت نجمہ منصور اور کئی دیگر نظم نگار لوح پر محفوظ ہیں ” تھیوری اور انسانی تشخیص کا بحران “ پروفیسر قدوس جاوید کا چشم کشا مضمون گوپی چند نارنگ کے ادبی زوایہ نظر کو سمجھنے میں بہترین کاوش ہے ، ڈاکٹر امجد طفیل ، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر ڈاکٹر عتیق اللہ نے ادبی تنقید و تحقیق پر توانا مضامین پیش کیے ہیں۔ غزل کی تو ایک کہکشاں لوح پر دیکھی جاسکتی ہے چند اشعار جو اب تک پڑھے۔
مرے پاس آتے اور اک نظر مجھے دیکھتے
مرا حال پوچھتے چارہ گر مجھے دیکھتے
سلیم کوثر
پڑنے لگا تھا ایک خلل سا اڑان میں
رستے سے آسمان ہٹانا پڑا مجھے
طارق نعیم
افسانے شاعری ، یاد رفتگاں ، تنقید و تحقیق اور دنیائے ادب کے فن پارے تازہ لوح کی زینت ہیں۔ ویل ڈن ممتاز شیخ ویل ڈن
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ