ملتان:معروف مزاحیہ شاعر ،کالم نگار ،دانشور اور ملتان ٹی ہاﺅس کے جنرل سیکرٹری خالد مسعود خان نے کہاہے کہ قیام پاکستان کے وقت دونوں جانب سے بڑے پیمانے پرہجرت کے نتیجے میںجس طرح باقی کاروبار زندگی متاثرہوا اسی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی ایک خلاءپیداہوگیاجسے ہجرت کرکے ملتان آنے والے مہاجروں نے انتھک محنت کے ساتھ پرکیا۔اس ہجرت کے عمل میں لوگوں نے بہت قربانیاں دیں اورصعوبتیں برداشت کیں ۔جشن آزادی کے موقع پراے پی پی سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کاکہ ملتا ن کے برعکس لاہور میں مہاجرین کی تعداد زیادہ نہیں ہے حالانکہ وہاں بھی لوگ ہجرت کرکے آئے تھے ۔ملتان کے مقامی لوگوں نے مہاجروں کاخوش دلی کے ساتھ استقبال کیا ۔یہاں کے لوگ ہمیشہ سے بڑے دل والے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ میرے والد عبدالمجید ساجد صاحب کے دوست عبدالرحمن دہلی گیٹ کے رہائش پذیر تھے وہ بہت نستعلیق انسان تھے۔پاکستان آتے ہوئے ان کی دوبیٹیاں شہید ہوگئیں ،بیٹا سفر کی صعوبتوں کے باعث بیمار ہوا اوراس کابھی والٹن کیمپ میں انتقال ہوگیا۔گویاانہوں نے پاکستان کے لئے اپنا پورا خاندان قربا ن کردیا۔ایمرسن کالج میں ایک ہندو لائبریرین لالہ جی تھے وہ ملتان چھوڑ کر چلے گئے توکالج میں کوئی لائبریرین ہی نہ رہا۔بعدازاںوہاں میرے والد کو لائبریرین بنایا گیا ۔جوہندواورسکھ پروفیسر یاافسر مختلف عہدوں پرفائز تھے ان کے چلے جانے کے بعد جوچند پروفیسر بچ گئے انہوں نے یہ خلاءبہت جذبے کے ساتھ پر کیا ۔دویاتین لیکچر دینے والے پروفیسر صبح سے شام تک پانچ پانچ لیکچر بھی دیتے رہے ان میں سے ایک پروفیسر پیرزادہ اعجاز تھے۔ اسی طرح پروفیسر جلیل صاحب کاتعلق کراچی سے تھا لیکن انہوں نے ساری زندگی ملتان کے لیے وقف کردی ۔ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں نے جس طرح یہ نظام چلایا ان کی خدمات کو کبھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
فیس بک کمینٹ