مجھے 1971ء کا الیکشن محض خواب کی طرح یاد ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ تب زندگی میں سیاست وغیرہ نام کی مصیبتیں در نہ آئی تھیں اور دوسری یہ کہ تب اخبار سے صرف اتنی دلچسپی تھی کہ کراچی سے آنے والے اخبار میں ”ٹارزن‘‘ کی با تصویر قسط وار کہانی پڑھنے کا روزانہ انتظار رہتا تھا‘ لیکن مجھے 1977 ء کا الیکشن اچھی طرح یاد ہے‘ پھر تحریک ِنظام مصطفی ‘جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا اور مارشل لاء کے ضابطہ 137 کے تحت گرفتاری۔ تب ہر پاکستانی کی طرح سیاست ہماری گٹھی میں پڑ چکی تھی اور ہم اس میں ‘ گوڈے گوڈے‘ دھنس چکے تھے۔
تب الیکشن آج کے الیکشن سے بالکل مختلف تھے اور ایمانداری کی بات ہے کہ مقابلتاً بہت سادہ بھی تھے۔ آج میں اور تب میں بنیادی فرق یہ تھا کہ تب سیاسی ورکر بے شمار اور لیڈر کم کم ہوا کرتے تھے‘ اب یہ عالم ہے کہ ورکر کم کم ہیں‘ اتنے کم کم جیسے آٹے میں نمک اور لیڈر بے تحاشہ ‘ لہٰذا ٹکٹوں کی تقسیم میں اس سے بھی زیادہ دھما چوکڑی اور چھینا جھپٹی ہوئی ہے‘ جیسے ا کیلا آدمی بھوکوں کے ایک ہجوم میں ترتیب سے کھانا تقسیم کرنے کی کوشش کرے۔ سبھی پارٹیوں میں یہی حال ہے۔ کیا پی ٹی آئی اور کیا مسلم لیگ اور کیا پیپلز پارٹی۔ کہیں روزانہ کی بنیاد پر ٹکٹ اس لیے تبدیل ہو رہے تھے کہ امیدوار بہت زیادہ ہیں اور کہیں اتنے کم کہ روزانہ کی بنیاد پر تھوڑا سا بہتر امیدوار ملنے پر پہلے کی چھٹی ہو رہی تھی۔ کیا ملتان اور کیا چکوال۔ بنی گالہ سے ابھی اپنی ٹکٹ لیکر بندہ ملتان نہیں پہنچتا کہ اسے چیچہ وطنی میں خبر ملتی ہے کہ تمہاری ٹکٹ کینسل ہو گئی ہے۔ عالم یہ ہے کہ الیکشن میں ایک مہینہ بھی نہیں رہ گیا اور کسی نے اپنی الیکشن مہم نہیں شروع کہ خوامخواہ کے پیسے نہ لگ جائیں اور پتا چلے کہ ٹکٹ تو کسی اور کو مل گیا ہے۔
ہر پارٹی میں تھوڑا بہت ٹکٹوں کا مسئلہ تو پیدا ہوتا ہی رہتا ہے‘ مگر پی ٹی آئی میں ‘لوٹا رجمنٹ‘ کی آمد نے تو اس سلسلے کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ ٹکٹیں روزانہ کی بنیاد پر نہیں‘ بلکہ فی گھنٹہ کے حساب سے تبدیل ہوئیں۔ بعض حلقوں میں تو ٹکٹیں اس تیزی سے تبدیل ہوئیں کہ ہر فریق کو یہ کنفیوژن رہا کہ کس کی ٹکٹ تازہ اور کس کی باسی ۔ مظفر گڑھ کے حلقہ پی پی 269 میں یہی حال تھا۔ تین معززین اپنی اپنی ٹکٹیں لے کر ریٹرننگ افسر کے پاس پہنچ گئے۔ بے چارے نے ٹکٹیں لینے کی بجائے سر پکڑ لیا کہ کیا کروں؟ ہر فریق کا دعویٰ تھا کہ اس کی ٹکٹ اصلی ہے۔ بالکل امین ڈھوڈے والا حال ہو گیا تھا‘ حلقہ پی پی 269 میں اب ریٹرننگ افسر کے پاس کیا پیمانہ تھا کہ اصلی نقلی کے درمیان پہچان کرتا؟
آپ اگر خوشاب جائیں تو وہاں کی مشہور سوغات ”ڈھوڈا‘‘ ہے‘ یہ ہمارے ملتانی سوہن حلوے کا چچیرا بھائی ہے‘ انیس بیس کے فرق سے اسے سوہن حلوہ ہی سمجھیں‘ تاہم خوشاب والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ سوہن حلوہ وغیرہ ہرگز نہیں‘ بلکہ یہ ان کی اپنی سوغات ہے اور ”ڈھوڈا‘‘ ہے۔ خیر اب اس بات پر کیا بحث کہ یہ سوہن حلوے کا رشتے دار ہے یا نہیں۔ اصل چیز تو وہ کنفیوژن ہے‘ جو ”امین ڈھوڈے والے‘‘ نے پھیلا رکھا ہے۔ ہر دوسری دوکان پر لکھا ہے کہ امین ڈھوڈا شاپ یا امین ڈھوڈا ہاؤس‘ یا اسی قسم کی اور تحریر‘ لیکن امین کا نام اکثر میں مشترک ہے‘ پھر شرفاء کو مزید پریشان کرنے کے لیے کئی دُکان والوں نے لفظ ”اصلی‘‘ کا اضافہ کر مارا ہے۔ کئی فنکاروں نے لکھا ہے کہ امین کی اصلی دُکان یہ ہے۔ کئی ایک نے لکھا ہے کہ شہر والی پرانی دُکان یہاں منتقل ہو گئی ہے۔ زیادہ عقلمندوں نے ساتھ یہ بھی لکھ دیا ہے کہ ”ہماری کوئی برانچ نہیں‘‘ اور نیچے یہ بھی نوٹ دیا گیا ہے کہ ”نقالوں سے ہوشیار رہیں‘‘۔ عرصہ ہوا میں خوشاب گیا‘ وہاں ہمارا دوست ڈپٹی کمشنر تھا۔ واپسی پر سوچا کہ ڈھوڈا لے لیا جائے۔ اب ڈپٹی کمشنر نے ہمارے ساتھ ایک نہایت سمجھدار مقامی آدمی روانہ کر دیا۔ وہ ایک دُکان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ میں نے پوچھا: امین کی اصلی دُکان یہی ہے؟ وہ کہنے لگا: جی وہ تو شہر میں ہے۔ میں نے کہا :تو شہر چلتے ہیں۔ وہ کہنے لگا: جی وہاں جو اصلی دُکان تھی ‘وہ بند ہو گئی ہے۔ تو میں نے تنگ آ کر کہا: تو پھر اصلی کونسی باقی ہے؟ کہنے لگا: جی پتا نہیں‘ ایسا کرتے ہیں سب سے ڈھوڈا لے کر چکھ لیں اور جو پسند آئے‘ وہ خرید لیں۔ یہ کہہ کر اس نے دو تین دُکانوں سے تھوڑا تھوڑا ڈھوڈا مجھے چکھایا۔ دو تین بار چکھ لینے کے بعد سارے ذائقے ایک جیسے ہو گئے‘ بالکل سمجھ ہی نہ آیا کہ کس کا ذائقہ کیسا تھا‘ لہٰذا ڈھوڈا خریدنے کا ارادہ منسوخ کیا اور واپس ملتان آ گیا۔
پی پی 269 کا ریٹرننگ آفیسر بڑا پریشان تھا کہ کس ٹکٹ کو اصلی تصور کروں؟ تینوں امیدوار بالکل اصلی ٹکیں لیے وہاں موجود تھے۔ پی ٹی آئی نے پہلے اس حلقے سے مخدوم مظفر حسین کو ٹکٹ جاری کیا۔ پھر نظر ثانی کرتے ہوئے مرتضیٰ رحیم کھر کو ٹکٹ جاری کر دیا‘ پھر ٹکٹوں کو اوپر نیچے کروانے میں ید طولیٰ رکھنے والے شاہ محمود قریشی نے دوبارہ ٹکٹ مخدوم مظفر حسین کو جاری کروا دیا۔ اس کے بعد بھی ٹکٹیں جاری کرنے کا شوق پورا نہ ہوا تو اسی حلقے سے مہر عبدالحسین ترگڑ کو بھی ٹکٹ جاری کر کے پروانہ تھما دیا۔ وہ تو شکر ہے کہ مرتضیٰ رحیم بقیہ دو شرفاء کے ٹکٹ کینسل ہونے کا لیٹر لے کر موقع پر پہنچ گیا‘ وگرنہ ابھی یہ ”رولا‘‘ کافی دیر چلتا۔ ریٹرننگ افسر نے اس کینسلیشن لیٹر کو غنیمت جانا اور فٹا فٹ مخدوم مظفر کو پلنگ اور مہر عبدالحسین ترگڑ کو جیپ کا نشان الاٹ کیا اور اس ”بھسوڑی‘‘ سے اپنی جان چھڑوائی۔
ایک سے ایک سے ایک بڑا لطیفہ ہوا ہے۔ دو دن پہلے سکندر بوسن پی ٹی آئی کا ٹکٹ لے کر الیکشن کمپین پر نکلا ہوا تھا کہ اچانک اسے پتہ چلا کر اسلام آباد میں دھرنے پر بیٹھا ہوا احمد حسین ڈیہڑ ٹکٹ لے کر دھرنے سے اٹھ بیٹھا ہے اور ملتان کی طرف آ رہا ہے۔ درجنوں نہیں بلا مبالغہ سو ڈیڑھ سو سیٹوں پر یہی ہوا ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں شہر کا صوبائی ٹکٹ دو تین ہاتھ سے گھومتا ہوا بالآخر ڈاکٹر شاہینہ نجیب کھوسہ کے ہاتھ آن لگا۔ اگر ایک آدھ دن کا مارجن ہوتا تو ممکن ہے‘ یہ ٹکٹ حنیف تیافی کے سپورٹر دھرنے کے زور پر ہتھیا لاتے ‘مگر ٹکٹیں جمع کروانے کا وقت گزر گیا تھا۔ ملتان میں مسلم لیگ ن کو بھی حلقہ این اے 155 اور 156 پر کافی پریشانی رہی۔ این اے 155 پر تو انہوں نے آخری دن اسی حلقے سے گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑنے والے سلمان قریشی کو ٹکٹ جاری کر دیا۔ سلمان قریشی نے 2013ء کے الیکشن میں اسی حلقہ سے (تب یہ حلقہ نمبر این اے 151 تھا) سکندر بوسن کے مقابلے میں قریب چالیس ہزار ووٹ لیے تھے۔ عالم یہ تھا کہ ووٹ دینے والوں کو بھی موصوف کا نام نہیں آتا تھا‘ یہ صرف اور صرف پی ٹی آئی کے ووٹ تھے‘ مگر ان چالیس ہزار ووٹوں نے موصوف میں ایسی ہوا بھری کہ نکلنے کا نام نہیں لیتی تھی‘ جسے ملتے اپنا تعارف کرواتے کہ ”سلمان قریشی ! میں نے سکندر بوسن کے مقابلے میں چالیس ہزار ووٹ لیے تھے‘‘۔ راوی مستند ہے وہ بتاتا ہے کہ موصوف نے یہی تعارف چار پانچ بار عمران سے بھی کروایا؛ حتیٰ کہ ایک دن ابھی وہ مل کر عمران سے اپنا یہی تعارف کروانا چاہتا تھا کہ عمران نے پہلے ہی کہہ دیا آپ ہیں سلمان قریشی جنہوں نے سکندر بوسن کے مقابلے میں چالیس ہزار ووٹ لیے تھے۔ سو اب الیکشن 2018ء میں سلمان قریشی نے 2013ء میں پی ٹی آئی کے زور پر حاصل کردہ چالیس ہزار ووٹوں کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ مار لیا ہے۔
یہ بات سنی سنائی نہیں‘ میں اس کا ذاتی طور پر گواہ ہوں۔ میں نے اپنی ایک عزیزہ سے پوچھا کہ اس نے کسے ووٹ دیا ہے ؟اس نے کہا: ”بلے کو‘‘۔ میں نے کہا: میرا مطلب ہے کس امیدوار کو؟ وہ کہنے لگی کہ مجھے اس کے نام کا نہیں پتا‘بس میں نے بلے کے نشان پرمہر لگا دی تھی۔ مظفر گڑھ سے آمدہ اس امیدوار کو 2013ء میں اس حلقے سے تصدیق کنندہ نہیں مل رہا تھا‘ لیکن اللہ بے نیاز ہے۔
اس بار امیدواروں کے ساتھ ٹکٹ کے معاملے میں وہی ہوا ہے ‘جو لڈو سانپ اور سیڑھی والی گیم میں ہوتا ہے۔ ابھی اوپر ہے تو ابھی سانپ نے نیچے بھجوا دیا ہے‘ لیکن پی ٹی آئی والوں کے لئے آئندہ کے لئے ٹکٹ حاصل کرنے کا آسان نسخہ یہ ہے کہ وہ چار بسوں اور دو سو بندوں کا بندوبست کر کے رکھیں۔ اگر شاہ محمود قریشی بھی پشت پر ہو تو سونے پر سہاگہ ہے‘ لیکن شاہ محمود کے خالی خولی وعدوں پر بھروسہ نہ کریں۔ ملتان میں وعدوں کے ڈسے درجن بھرلوگوں کو تو میں جانتا ہوں۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ